بدھ 28نومبر 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
عرب دنیا کی صورتحال جمود کا شکار ہے ۔ عربوں کے باہمی تعلقات معمولی درجے کے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد سوالات زبانوں پر ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ جمود طاری رہیگا۔ کیا عرب دگرگوں صورتحال کو نوشتہ تقدیر تسلیم کرکے اس کے آگے سرتسلیم خم کرچکے ہیں۔ آیا وہ عرب اتحاد کو عملی جامہ پہنانے والی کسی بھی ٹھوس کوشش کےلئے آمادہ نہیں ۔ آیا عرب ممالک وقتاً فوقتاً نعرے بازی کی فضا سے نکلنے کی بابت بھی کچھ سوچ رہے ہیں۔
عربوں کی یہ صورتحال بلا شبہ ناقابل قبول ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم جمود کی اس منزل سے نکل کر عملی اقدام کی منزل میں داخل ہوں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسی جذبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عرب ممالک کا دورہ کیا۔ انکی خواہش ہے کہ عربوں کی موجودہ صورتحال تبدیل ہو ۔ نئی روح اور نیا جذبہ بیدار ہو۔ ذہن و دماغ پر چھائی ہوئی گرد چھٹے عرب دنیا تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ بین الاقوامی ماحول الٹ پلٹ رہا ہے جو عرب دنیا کے جمود پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔
سعودی عرب کسی لاگ لپیٹ اور سودے بازی کے بغیر عرب دنیا کی قیادت کررہا ہے۔ اسے اس بات کی پروا نہیں کہ کسی کو مملکت کا یہ کردار قبول ہے یا نہیں۔ یہ ہمارا جائز حق ہے۔ سعودی عرب کے قائدانہ کردار کو نظر انداز کرنے والے مملکت کی قائدانہ حیثیت کی نفی نہیں کرسکتے۔ سعودی عرب عالمی برادری میں عرب دنیا کی خاطر تن من دھن سے لگا ہوا ہے۔ عربوں کے مسائل خصوصاً فلسطینی کاز کیلئے جملہ وسائل وقف کئے ہوئے ہے۔ مملکت سے زیادہ عربوں کے قائدانہ کردار کا اہل کوئی نہیں اسی لئے سعودی عرب تمام عرب ممالک کو صف بستہ کرکے امید کی کرن روشن کررہا ہے۔