حقوق العباد ، دین سے سب سے زیادہ مقدم
محمد کبیر بٹ۔ریاض
قرآن و سنت میں حقوق اللہ کے بعد سب سے زیادہ اہمیت حقوق العباد کو دی گئی ہے ۔حقوق العباد میں اگر درجہ بندی کی جائے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے زوجین کے باہمی حقوق و فرائض کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔چونکہ زوجین کے باہمی تعلق ہی کی وجہ سے اولاد وجود میں آتی ہے اس لئے فطری بات ہے کہ اس کے بعد والدین کے حقوق کو اول درجہ حاصل ہے۔ اس کے بعد قرابت داروں کے حقوق اور پھر پڑوسیوں اور عام مسلمانوں کے حقوق کے تاکید کی گئی ہے۔ آج کل دنیا میں انسانی حقوق کا تذکرہ تو بہت ہوتا ہے لیکن فرائض کا ذکر سننے میں نہیں آتا ۔ اسلام نے حقوق کے ساتھ اجتماعی زندگی میں فرائض کا تعین بھی کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہر کوئی اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرے تو اسے حقوق مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی۔خیر القرون میں مسلمان معاشروں میں حقوق کے مطالبات کا تذکرہ بہت کم ہی ملتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ فرض شناس تھے ،ہر کوئی اپنے فرائض کی ادائیگی کی فکر میں رہتا تھا، کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی تھی ۔آج ہر کوئی اپنا حق تو مانگتا ہے لیکن اپنے حصے کے فرائض کو ادا کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا ۔اس مضمون میں مندرجہ بالا ترتیب کے ساتھ ہی ان شااللہ قرآن و سنت کی روشنی میں باہمی حقوق و فرائض کی نشا ندہی کی جائیگی تاکہ ہم حقوق العباد کی اہمیت سے روشناس ہو کر ان کی ادائیگی کے ذریعے اپنے آقا و مالک کی رضا حاصل کر سکیں۔
مرد اور عورت کا باہمی تعلق انسانی معاشرے کی بنیاد ہے ،اس لئے اسلام نے اس تعلق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنے کا حکم دیا ہے جسے عقدِزواج یعنی مرد اور عورت کے درمیان نکاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔نکاح کے اہم ترین مقاصد درج ذیل ہیں:
* اخلاق اور عفت و عصمت کی حفاظت۔
* باہمی الفت و محبت اورمؤدت۔
* خاندان و نسب کی حفاظت۔
* نسلِ انسانی کا ارتقا اور تسلسل۔
مرد و عورت کی عفت و عصمت کی حفاظت کو قرآن میں اول درجے پر رکھا گیا ہے ۔قرآ ن حکیم نے شادی شدہ مرد کو ’’محصن‘‘اور شادی شدہ عورت کو’’ محصنہ ‘‘ قرار دیا ہے۔
’’محصن‘‘ کا لفظ ’’حصین‘‘ سے بنا ہے اور اس کے معنیٰ ہیں قلعہ۔گویا نکاح کر کے مرد ایک قلعہ تعمیر کرتا ہے اور عورت و مرد اپنی عصمت کی حفاظت کیلئے اس قلعے میں پناہ گزین ہوتے ہیں ۔ارشاد ربانی ہے:
’’وہ مرد اور عورتیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
عصمت کی اسی حفاظت اور اعلیٰ اخلاقیات کی تعمیر وترقی کی خاطر عورتوں کو پردے اور حجاب کے احکامات دیے گئے ہیں،مردوں اور عورتوں کے باہمی اختلاط کو روکا گیا اور دونوں کے دائرہ کار کو 2مختلف دائروں میں پابند کر دیا گیا حتیٰ کہ نماز جیسی اہم عبادت کی اجتماعی ادائیگی سے بھی عورتوں کو استثنیٰ دیا گیا ۔نبی نے فرمایا :
’’ تم نکاح کیا کرو کہ وہ نظر بد سے روکنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘
سورۃ الروم میں ارشاد فرمایا:
’’اللہ نے تمہارے لئے تمہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرواور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا تعلق پیدا کر دیا۔ ‘‘
سورۃالبقرہ میں مرد اور عورت کے اس باہمی تعلق کو بڑے ہی لطیف اور حسین پیرائے میں یوں بیان کیا گیا ہے :
’’وہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔‘‘
جس طرح لباس انسان کے جسمانی عیبوں کو چھپا کر اسکی زیب وزینت کاذریعہ بھی بنتا ہے اور گرمی اور سردی کے مضر اثرات سے بچاؤ کا بھی ذریعہ ہے، اسی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کی کمزوریوں اور عیبوں پر پردہ ڈالنے والے اور باہم مل کر زندگی کی گاڑی کو ہر طرح کے حالات میں صحیح سمت رکھتے ہیں۔مرد و عورت کے باہمی تعلق میں جو الفت و محبت اللہ تعالیٰ نے ودیعت کی ہے، اُس کا مقصد محض جنسی لذت حاصل کرنا ہی نہیںجیسا کہ مغربی معاشروں نے انسان کو حیوانات کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے اور نکاح کو ایک فرسودہ رسم کہہ کر رد کر دیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں خاندان اورنسلِ انسانی تباہی سے دوچار ہے۔پاکستان کا دورہ کرنے والی ایک امریکی خاتون لکھتی ہیں:
’’پاکستان میں بیوی خاوند کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم امریکی خواتین کا سہانا خواب ہے۔میری ساس،میری ماں ،میری نانی اور دادی چاروں اولڈ ہومز میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مری ہیں اور کوئی ان کے آنسو پونجھنے والا نہیں تھا۔‘‘
ایک مسلمان معاشرے میں بڑے بوڑھوں کو اولاد اور پوتیاں پوتے اور نواسیاں نواسے ہمہ وقت خدمت اور دیکھ بھال کو اپنے لئے سعادت اور رب کی رضا کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔یہ سب نعمتیں مسلمانوں کو رشتہ ازدواج اور نکاح کے پاکیزہ ذریعے سے ہی حاصل ہوتی ہیں جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیتیاں قرار دیا ہے ۔جس طرح کھیتی فصل کی کاشت کیلئے ہوتی ہے، اسی طرح عورتوں کے رحم کو قرارِ حمل کے موافق بنا دیا گیا اور مرد اور عورت کے باہمی ملاپ کو انسانی نسل نطفے اور نسب کی حفاظت کا ذریعہ بنا دیا ورنہ مغربی معاشرے میں کسی سے ولدیت پوچھنا عیب سمجھا جاتا ہے۔امریکہ میں ایک 8 سالہ بچے نے ہیلری کلنٹن کو خط لکھا :
’’ جب سے میں ہوش سنبھالا ہوں ایک شفیق والد کے ہاتھ اور ایک رحیم والدہ کی ممتا کو ترس رہا ہوں لہذا میری مدد کی جائے ‘‘ ۔
کافی پرانے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں8 کروڑ کنواری مائیں پائی جاتی ہیں۔چونکہ مرد اور عورت کا باہمی تعلق انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اس لئے اس تعلق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنے اور اسے ہر طرح کے نقصان سے بچانے کیلئے قرآن و سنت میں مرد و عورت کے دائرہ کار کو متعین کیا گیا ہے ۔نکاح اور طلاق ،وراثت کی تقسیم ،نان نفقہ کی ذمہ داری کا تعین ،مہر کی ادئیگی، خلع، ایلا اور باہمی ناچاقی کی صورت میں علیحدگی کی جائز صورتوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے
والے پاکیزہ طریقے کو دین میں جو اہمیت حاصل ہے اس کو سمجھنے کیلئے ایک حدیث نظرِ قارئین ہے:
’’شیطان پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے چیلوں کی کارگردگی کی رپورٹ لیتا ہے۔کوئی کہتا ہے میں نے فلاں جگہ قتل کروا دیا ، کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو زنا یا شراب کی طرف مائل کر دیا لیکن ابلیس لعین تب خوش ہوتا ہے جب ایک چیلا یہ رپورٹ دیتا ہے کہ میں نے بیوی خاوند میں پھوٹ ڈالدی اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا، وہ اسے گلے لگاتا اور شاباش دیتا ہے کہ تو نے اصل کام کیا ‘‘۔
اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے یہ بات سمجھ آئی کہ بیوی خاوند کا تعلق کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔اس تعلق کو مضبوط و مستحکم بنانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں اور مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
’’مرد عورتوں پر ’’قوام‘‘ بنائے گئے ہیں ،اس وجہ سے اللہ نے ایک کو دوسرے پرفضیلت دی ہے اور مردوں نے عورتوں پر اپنے مال خرچ کیے‘‘(النساء34) ۔
قوام کے معنیٰ ہیں محافظ ،نگران،نگہبان، سربراہ ،معاملات کا منتظم اور ذمہ دار وغیرہ۔مرد کو قوام کیوں بنایا گیا ہے؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے مفکرِ اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ حقوقِ زوجین میں لکھتے ہیں:
’’خانگی زندگی کے نظم کو برقرار رکھنے کیلئے بہر حال زوجین میں سے کسی ایک کا قوام اور صاحب ِ ا مر ہونا ناگزیر ہے۔اگر دونوں مساوی درجہ اورمساوی اختیارات رکھنے والے ہوں تو بد نظمی کا پیدا ہونا یقینی ہے جیسا کہ فی الواقع ان قوموں میں رونما ہو رہی ہے جنہوں نے زوجین کے درمیان مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے اس لئے اس نے فطرت کا لحاظ کر کے زوجین میں سے ایک کو قوام اور صاحبِ امر اور دوسرے کو مطیع اور ماتحت بناناضروری سمجھا اور قوامیت کیلئے اس فریق (مرد)کا انتخاب کیا جو فطرتاً یہی درجہ لے کر پیدا ہوا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ مرد اور عورت کے اس باہمی تعلق کو مضبوط کرنے اور استحکام بخشنے والی چیز قانون کی رو سے حقوق و فرائض کا تعین نہیں بلکہ افہام و تفہیم ،عفودرگزر اور باہمی الفت و محبت اور ایک دوسرے کیلئے ایثار و قربانی کا جذبہ ہے۔درج ذیل باتیں مر دکے فرائض میں شامل ہیں:
نان و نفقہ :
عورتوں کے نان نفقے کی پوری ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے اور مہر کو عورت کا جائز حق قرار دیا ہے۔وراثت میں بھی عورتوں کا حق مردوں سے نصف اسی لئے ہے کہ مرد پر تمام گھر کے اخراجات کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے اور عورت صاحبِ مال ہونے کے باوجود بھی خرچ کی ذمہ دار نہیں۔اس کے باوجود اسے ذاتی ملکیت کا پورا حق دیا گیا ہے۔
مہر کی ادائیگی :
مہر کو عورتوں کا حق قرار دیا گیا ہے اور مہر کی مقدار مرد کی استطاعت کے حساب سے ہو گی۔ کوئی متعین مقدار مقرر نہیں ۔
عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک :
مردوں کوحکم دیا گیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی اور حسنِ سلوک سے پیش آئیں،ظلم اور زیادتی سے اجتناب کریں۔نبی نے فرمایا:
’’ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ اللہ نے ان کو تمہارا زیردست بنایا ہے لہذا جیسا خود کھاؤ انہیں بھی ویسا ہی کھلاؤ اور جیسا خود پہنو انہیں بھی ویسا ہی لباس پہناؤ۔‘‘
بیویوں کے درمیان عدل :
مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ 2یا اس سے زیادہ بیویوں کی صورت میں ان کے ساتھ پورا عدل کریں۔ لباس، خوراک اور رہن سہن سب کو ایک جیسا مہیا کریں اور زوجیت کے حقوق کی ادائیگی میں بھی عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیںالبتہ دلی محبت میں اگر کسی ایک سے دل کا لگاؤ زیادہ ہو تو حرج نہیں کہ یہ انسان کے بس سے باہر کا معاملہ ہے البتہ جو لوگ نئی دلہن لانے کے بعد پہلی بیوی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ان کو قرآن و سنت میں سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
تعلیم و تربیت :
حکمِ ربانی ہے:
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
رسول نے فرمایا :
’’مرد اپنے اہل خانہ کے بارے میں اللہ کے حضور جوابدہ ہے۔ ‘‘
لہذا مردوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں۔اگر مرد حضرات مندرجہ بالا فرائض کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے خوف کے ساتھ بطیب خاطر پوری کریں تو عورتوں کو ان کی حقوق خود بخود مل جائیں گے اور انہیں مردوں سے گلہ شکوہ کر کے اپنی حقوق مانگنے کی ضرورت نہیں رہتی۔مردوں کی طرح عورتوں پر بھی فرائض عائد ہوتے ہیں جو دراصل مرد کے حقوق ہیں اور خواتین احسن طریقے سے ان فرائض کو ادا کریں تو مردوں کو بھی اپنے حقوق کے مطالبات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’نیک بخت عورتیں اطاعت کرنے والی ہیں، خاوند کی غیر موجودگی میں حفاظت کرنے والی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ہے۔‘‘
معروف میں خاوند کی اطاعت کو اللہ نے عورتوں پر فرض کر دیا ہے حتیٰ کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر کسی انسان کو سجدے کی اجازت دی جاتی تو عورتوں کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کریں (ترمذی)۔
خاوند کی غیر موجودگی میں اپنی عفت اور عصمت کی حفاظت کرنا اور شوہرکے مال و اسباب اور بچوں کی حفاظت ،دیکھ بھال اور تربیت یہ عورتوں کے فرائض میں شامل ہے۔مسلمان عورتوں کو سیدہ النساء حضرت فاطمہؓ کو اپنے لئے نمونہ بنانا چاہیے جو اپنے شوہر نامدار پر جان چھڑکنے والی اور دل و جان سے ان کی اطاعت کرنے والی تھیں۔چکی پیس کر آٹا تیار کرنا ،پھر کھانا خود تیار کرنا اور ساتھ بچوں کی دیکھ بھال بھی خود کرنا۔نبی چاہتے تو اپنی بیٹی کو کنیز اور غلام مہیا کرسکتے تھے لیکن اس مطالبے پر امام الانبیاء سید الاولین والآخرین جیسے
شفیق باپ نے رات کو سوتے وقت 33مرتبہ سبحان اللہ،33 مرتبہ الحمدللہ اور34 مرتبہ اللہ اکبر کے اذکار کی تلقین کر کے فرمایا یہ تمہارے لئے نوکر اور غلام سے زیادہ فائدہ مند ہیں۔
آج کی خواتین تھوڑا سا پڑھ لکھ لیتی ہیں تو پھر کچن کا منہ دیکھنا شاید گناہ سمجھتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اگر وسعت اور کشادگی دی ہے تو پھر نوکر اور خادم کی خدمات حاصل کرنا بالکل جائز ہے لیکن خانوادۂ نبوت کو اپنی زندگی کے ہر عمل میں اپنے لئے آئینہ بنانا ہی مومن کی شان کے لائق ہے جہاں نبی گھر کی خواتین کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے ،غلاموں اور خادموں سے بھی تعاون کرتے تھے اور اپنے ذاتی کام جوتوں اور کپڑوں کی مرمت بھی خود ہی کر لیتے تھے۔
بچوں کی نگرانی اور حفاظت :
نبی نے فرمایا:
’’عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس گھر کے متعلق باز پرس ہو گی۔‘‘
عورت کی سب سے بڑی مسئولیت بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت ہے۔ماں کی گود پہلی تربیت گاہ ہے۔کسی سیانے کا بڑا ہی حکیمانہ قول ہے’’بچپن کی بات پچپن تک چلتی ہے‘‘۔مائیں اپنی گود میں پلنے والی مستقبل کی نسل کا اگر خیال رکھیں اور ان کی تعلیم و تربیت اسلامی ہدایات کی روشنی میں کریں تو ہمارے معاشرے میں بھی اسلامی زندگی کی بہار آسکتی ہے۔