ہرمصیبت وآزمائش ، عذاب الٰہی نہیں
***مولانا نثار احمدحصیر قاسمی۔حیدرآباد دکن***
اس دنیا میں کسی بھی انسان کو دائمی خوشی حاصل ہے نہ دائمی غم، بلکہ کبھی غم ہے تو کبھی خوشی، کبھی درد والم ہے تو کبھی فرحت ومسرت، کبھی بیماری ہے تو کبھی صحت، کبھی تفکرات والجھنیں ہیں تو کبھی بے فکر وانبساط، کبھی تنگی ہے تو کبھی آسودگی، کبھی سکون ہے تو کبھی بے چینی، کبھی سردی ہے تو کبھی گرمی، کبھی امن ہے تو کبھی بد امنی، کبھی تکلیف ہے تو کبھی راحت۔یہ سلسلہ ہرفرد بشر کے ساتھ لگاہوا ہے،کوئی اس سے خالی نہیں، مگر بسااوقات کسی پر دَرد والم ،مصائب ومشکلات اورپریشانیوں والجھنوں کا سلسلہ دراز ہوجاتاہے تو وہ سمجھ بیٹھتاہے کہ ساری دنیا کی مصیبتیں اسی کیلئے مختص کردی گئی ہیں۔ہم میں سے بہت سے لوگ ہیں جو مصائب ومشکلات اورالجھنوں وپریشانیوں کے لامتناہی سلسلہ سے بہت بددل ہوجاتے ہیں کہ ان کی زندگی مصیبتوں اورآزمائشوں کی مجموعہ بن گئی ہے، کہ ایک مصیبت سے چھٹکارہ نہیں ملتا کہ دوسری مصیبت حملہ آور ہوجاتی ہے، ایک پریشانی دور نہیں ہوتی کہ دوسری اس سے بڑی پریشانی گھیر لیتی ہے۔وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی قسمت ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ اس میں کبھی شاید ہنسی خوشی نہیں، شاذ ونادر ہی کبھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ تیرتی اورمسرت کے لمحات سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتاہے۔ انہیں یہ دائمی احساس ستاتا رہتاہے کہ یہ مصائب وآلام، یہ مشکلات وپریشانیاں اوریہ آزمائش وآفات وبلائیں شاید اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں سزا دینے کیلئے ہیں۔ انہیں یہ سزائیں ان کے گناہوں ومصیبتوں کے پاداش میں دیاجارہے ہیں جس کا انہوں نے دانستہ یانادانستہ ارتکاب کیاہے، یازندگی کے کسی موڑ اورکسی لمحے میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا عمل کیاہے جس کی سزا انہیں ان مصیبتوں کی شکل میں بھگتنی پڑرہی ہے۔ اس احساس کی وجہ سے ان کی مصیبتوں میں اوربھی شدت پیدا ہوجاتی اوران کا درد اوربھی گہرا ہوجاتاہے اورآہستہ آہستہ ان کا یہ احساس نفسیاتی بیمار ی وتکلیف میں تبدیل ہوجاتاہے جس کے بعد وہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتا اوراس کے اندر سے اِن مشکلات سے نبرد آزما ہونے ومزاحمت کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ مومن ہونے کے ناطے غلطیوں وگناہوں پر ندامت اوراس کا احساس اچھی بات ہے بلکہ ہر مومن کو اپنی کوتاہیوں کو ٹٹولنا اورمعصیتوں پر نظر رکھنا چاہئے اوراللہ سے اس کی معافی مانگنی چاہئے اورتوبہ واستغفار کے ذریعہ اللہ سے عفو ودرگزر کی درخواست کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کا خواستگار ہونا چاہئے مگر اس کے بعد اسی فکر میں پڑے رہنا اورمایوسی کا شکار ہونا درست نہیں بلکہ توبہ ومعافی کے بعد اللہ تعالیٰ سے بہتر امید رکھنی چاہئے۔احساس ندامت ضمیر اورایمان کی موجودگی کی علامت ہے اورہرانسان کو چاہئے کہ وہ خود کو دھلادھلایاہوا نہ سمجھے، گناہوں سے پاک وصاف تصور نہ کرے بلکہ یہ سمجھے کہ ’’کل بنی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون‘‘ "ہراولاد آدم خطاکار ہے، مگر اس میں سب سے بہتر خطاکار وہ ہے جو توبہ کرنے والا( اوراللہ سے معافی مانگنے والااوراپنی غلطیوں پر اڑنے والا )نہ ہو"
توبہ کے بعد اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہئے مایوسی کا شکار نہیںہوناچاہئے۔
انسان کا یہ سمجھنا کہ اس کے مصائب ومشکلات، ابتلاء وآزمائش، بیماری ودکھ اورحوادث وآفات اللہ کی جانب سے سزا ہے اورہرپریشانی اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے، یہ درست نہیںبلکہ یہ پریشانیاں اکثر وبیشتر انسان کو مانجھنے اوراس کے درجات کو بلند کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ اللہ کے نبی کا ارشاد ہے :
"لوگوں میں سب سے زیادہ بلائیں، مصیبتیں اورآزمائش انبیاء کو پہنچتے ہیں، پھر نیک وصالح لوگوں کو پھر جو اُن سے زیادہ مشابہت رکھنے والے ہوتے ہیں۔"
اگر انسان کے ایمان میں سختی وپائیداری ومضبوطی ہوتی ہے تو اس کی آزمائش بھی زیادہ سخت ہوتی ہے اوراگرایمان کمزور ہوتاہے، اس میں سختی ومضبوطی نہیں ہوتی تو اس کی آزمائش بھی ہلکی ہوتی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول !لوگوں میں سب سے زیادہ اورسب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
" انبیاء کی، پھر صالحین کی، پھر جو اُن کے مثل اوران سے مشابہت رکھنے والے ہوتے ہیں، انسانوں کی آزمائش اس کے ایمان کے بقدر کی جاتی ہے، اگر اس کے دین میں سختی ورسوخ ہوتاہے تو اس کی آزمائش میں اضافہ کردیاجاتاہے اوراگر اس کے دین (ایمان) میں خفت ہوتی ہے تو اس کی آزمائش میں تخفیف کردی جاتی ہے اوراس کی آزمائش ہلکی کردی جاتی ہے اوربندوں کی آزمائش کی جاتی رہتی اوراسے طرح طرح کے مصائب ومشکلات میں مبتلا کیاجاتارہتاہے یہاں تک کہ وہ روئے زمین پر اس طرح چلتا پھرتاہے کہ اس کے اندر کوئی خطا ومعصیت باقی نہیں رہتی ۔" (مسنداحمد بن حنبل، ترمذی، ابن ماجہ)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ًروایت ہے :
’’ان اللہ اذا احب قوما ابتلاہم‘‘ …الخ۔
"اللہ جب کسی قوم کو چاہتااورپسند کرتاہے تو اسے آزمائش میں ڈالتاہے، بندہ جب اس پر راضی رہتاہے تو اللہ اس سے راضی وخوش ہوجاتاہے اوربندہ اگر اس پر ناراض ہوتااورخفگی کا اظہار کرتاہے تو اللہ اس سے ناراض وخفا ہوجاتاہے۔" (ترمذی بسند صحیح)۔
اس حدیث سے اندازہ ہوتاہے کہ محض بیماری، پریشانی، آزمائش، حزن وملال اوررنج والم، سزا وعقاب نہیں بلکہ سزا وعقاب اُس آزمائش پر صبر نہ کرنے میں ہے، یہاں تک کہ اگر مصائب وآزمائش میں اس طرح گھرا ہو کہ یقین سے کہا جاسکتاہو کہ یہ اس کے گناہ کی سزا ہے اور اسے بطور عقاب اس میں مبتلا کیاگیاہے تو بھی اسے عذاب الٰہی سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ۔
مثال کے طور پر کوئی ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہوگیا اورڈاکٹروں نے اس کی وجہ حرام وناجائز طریقہ پر جنسی تعلق قائم کرنے کو بتایا اورشہوت پرستی وزنا کاری وبدکاری کو اس کا سبب قرار دیا تو بھی یہ عذاب نہیں بلکہ آزمائش وامتحان ہے۔اگر بندہ یہ تصور کرلے تو اس سے اس کی تکلیف ہلکی ہوجائے گی،یہ اس وجہ سے کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب اوروہاں کی سختی سے بہت ہلکی وآسان ہے۔یہاں کی سزا روح کو پاک کرنے اوربندے پر رحم وکرم کرنے کیلئے ہے تاکہ بندہ اس کے بعد گناہ سے پہلے جس طرح تھا اس سے زیادہ بہتر طریقہ پر پاک وصاف ہوجائے، پہلے وہ اللہ سے جتنا قریب تھا اس سے زیادہ قریب ہوجاتا، پہلے جتنا صاف تھا اس سے زیادہ صاف ہوجاتا اورنکھر جاتاہے، پہلے جتنا پرہیزگار تھا اس سے زیادہ متقی وپرہیزگار ہوجاتاہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
" اللہ جب اپنے بندہ کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنے کا ارادہ کرتاہے تو اسے دنیا ہی میں جلدی سزا دیدیتاہے اوراگر اللہ اپنے بندے کے ساتھ خیر کرنا نہیں چاہتا تو اس کے گناہوں کے باوجود اس سے دست کش رہتاہے (اس کی گرفت نہیں کرتا) پھر قیامت کے دن اس کا اسے بدلہ دیتاہے۔" (ترمذی بسندصحیح)۔
تو جلدی کرتے ہوئے دنیا ہی میں سزا دینے کو اللہ کی جانب سے خیر کا ارادہ قرار دیاگیاہے۔اسے غضب الٰہی اورعذاب قرار نہیں دیاگیا۔بیماری ہو یاناکامی اس کے اسباب ہوتے ہیں اوراکثر وبیشتر اس کا علم ہوتاہے۔اس کائنات میں یہ سلسلہ شروع سے چلا آرہا ہے کہ ہر نتیجہ کا ایک نہ ایک سبب ہوتاہے اوریہ نظام کائنات ہر ایک کیلئے برابر ہے خواہ مومن ہو یاکافر۔ ایسا نہیں کہ میٹھی چیز کھانے سے کافر کا شوگر تو بڑھے گا مومن کا نہیں، ٹینشن اوربڑے کے گوشت اورنمک کی زیادتی سے کافر کا بلڈپریشر تو ہائی ہوگا مومن کا نہیں، سخت گرمی میں چل کر آتے ہی فریج کا برفیلا پانی پینے سے گنہگار کی طبیعت تو خراب ہوگی نیکوں کی نہیں، ایسانہیں ہے، یہ نظام کائنات ہر ایک کیلئے یکساں ہے اورہر چیز کا ایک سبب ہے۔ہر کوئی بیماری میں مبتلا ہوتاحادثات سے دوچار ہوتا، اورناگہانی صورتحال کا سامنا کرتاہے، اس میں کمی اورزیادتی احتیاط کرنے یانہ کرنے سے ہوتی یااسباب کو اختیار کرنے یانہ کرنے سے ہوتی، البتہ یہی چیزیں مومن کیلئے کفارۂ سیئات بنتے، گناہوں کو دھونے کا ذریعہ بنتے اورکبھی ترقیٔ درجات کا سبب بنتے ہیں۔ مومن ان آزمائشوں کے اندر گناہوں کے خوف میں بھی مبتلا ہوتاہے اوراللہ سے اچھی امید بھی کرتاہے۔انبیاء علیہم السلام بھی اسی طرح خوف ورجاء کے درمیان رہتے تھے۔
رہا یہ سوال کہ ہم کس طرح فرق کرسکتے ہیں کہ کونسی بیماری اورکونسی مصیبت آزمائش ہے اورکونسی سزا اوربلائیں ہیں، تو اہل علم نے اس کے بارے میں ایک ضابطہ بیان کیا ہے کہ آزمائش کی گھڑی اوربیماری وغیرہ میں بندہ اگر صبر کرتا، حوصلہ مندرہتا اوراللہ کی تقدیر پر راضی رہتاہے تو اس پر جزع وفزع نہیں کرتا، واویلا نہیں مچاتااوراللہ سے بدگمانی کا اظہار نہیں کرتا اورنہ ہی نامناسب کلمات اپنی زبان پر لاتاہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا، مغفرت کی دعائیں کرتا اوراللہ کی طرف جھکتاہے تویہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی یہ بیماری اس کے درجات کو بلند کرنے اوراس کی خطائوں کو معاف کرنے اوراس کے گناہوں کا کفارہ بنانے کے لئے ہیںاور اگر بندہ اس پر جزع وفزع کرنے لگتا، چیخ وپکار شروع کردیتا، بددل ومایوس ہوجاتا، اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا، زبان سے نامناسب کلمات نکالنے لگتا اورواویلا مچاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض کرنے لگتاہے اورشرکے سامنے سرتسلیم خم کردیتا، تو یہ محرومی وخسارے کی علامت اورسزا کی نشانی ہے۔
ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ہمیں مصائب وآلام اورابتلاء وآزمائش کی گھڑی میں کس طرح رہنا چاہئے، اس آزمائش سے کس طرح نمٹنا اورسوچنا اورطرزعمل اختیار کرناچاہئے، اسے منفی انداز اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ منفی طرز عمل بندے کو اللہ سے دور کردیتاہے، ایسانہ ہو کہ بیماری کی شدت میں ہماری زبان سے یہ نکل جائے کہ میں ہی اس بیماری یا آزمائش کے لئے رہاتھا، اللہ نے میرے ساتھ یہ اچھا نہیں کیا، یا اس طرح کی باتیں۔آزمائش میں بلاشبہ بندۂ مومن کے لئے خیر ہی خیر ہے بشرطیکہ ہم اسے خیر بنائیں اوراس کو خیر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اس پر صبر کریں، اللہ سے مدد طلب کریں، دعائیں کریںاورپہلے سے زیادہ اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اورعاجزی کا اظہار کریں۔حدیث کے اندر آیاہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
عجبا لأمر المؤمن، ان امرہ کلہ خیر… الخ۔
"ایمان والوں کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا پورا معاملہ خیر ہی خیرہے یہ صرف ایمان والوں کی بات ہے، اگر اسے خوشی وکشائش حاصل ہوتی ہے اوروہ اس پر اللہ کا شکر بجالاتاہے تو یہ اس کیلئے خیر ہے اوراگر اسے کوئی تکلیف ومصیبت پہنچتی اوروہ اس پر صبر کرتاہے تو یہ بھی اس کیلئے خیر وبہتر ہے (صحیح مسلم)۔
غم واندوہ، حزن وملال، رنج وتکلیف ایک چیلنج ہے جس کا ہمیں سامنا ہوتا۔ہماری انرجی کو ضائع کرتااورہمارے اندر تحریک پیدا کرتاہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان چیلنجوں کا سامنا کریں، مایوسی وقنوطیت کا شکار نہ ہوں، وساوس اورمنفی خیالات کو درآنے کا موقع نہ دیںبلکہ حوصلہ کے ساتھ ان حالات کا اورناگفتہ بہ صورتحال کا مقابلہ کریں اوراللہ سے خیر کی امید رکھیں اوراللہ کو یاد کرتے رہیں۔خود اللہ تعالی نے فرمایاہے:
’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘
" اللہ کے ذکر سے دل کو اطمینان وسکون حاصل ہوتاہے'"
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو، ہر کوئی کسی نہ کسی آزمائش میں ضروررہتاہے اگرچہ اس کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے'اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"یقینا ہم تمہارا امتحان لیں گے تاکہ تم میں جد وجہد کرنے والوں اورصبر کرنے والوں کو ظاہر کردیں اورہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کرلیں۔"(محمد31)۔
جس بندے کے اندر مومنانہ روح کارفرما ہوتی، وہ اپنے خالق سے مربوط ہوتا اوراپنے پروردگار سے تعلق رکھنے والا ہوتاہے۔ وہ خود کو حالات سے ہم آہنگ کرتا اورحالات سے متاثر ہوکر نروس نہیں ہوتا، خواہ یہ حالات کتنے ہی کٹھن اوراندوہناک کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
"اورجو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کوہدایت دیتا ہے۔"(التغابن 11)
انسان سمجھتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے اللہ کی مشیت اوراس کے حکم سے ہی پہنچاہے تو وہ صبر اوررضا بالقضاء کا مظاہرہ کرتاہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ اس کے دل میں یقین راسخ کردیتاہے جس سے وہ جان لیتاہے کہ اس کو پہنچنے والی تکلیف اس سے چوک نہیں سکتی اورجو اس سے چوک جانے والی ہے وہ اسے پہنچ نہیں سکتی(ابن کثیر) ۔
اسی یقین وایمان کے ساتھ ابتلا وآزمائش انسان کے لئے شفا اورعافیت ثابت ہوتی ہے، اس کا تقاضاہے کہ ہم ان حالات میں صبر سے کام لیں، اللہ سے مدد طلب کریںاوراللہ ہی سے اسے دور کرنے کی درخواست کریںاوراس سے نجات کیلئے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھائیں۔