آپ کے سامنے زور سے بولنا ایسی بے ادبی تھی جو بعض اوقات بے ادبی میں شمار نہیں ہو تی، ایسے آداب کی تعلیم میں حضور کو حیا ء مانع ہو تی تھی
*** محمد اقبال ؒ ۔ مدینہ منورہ ***
اللہ رب العالمین نے سید الانبیاء والمرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر خیر وخوبی اور جملہ کمالات اور محاسن کا جامع بنایا۔جو صفات کمال کسی بشر کو عطا کی جا سکتی تھیں ان سب کو جسد اطہر میں ودیعت رکھا ۔ ایک حدیث میں ایک موقع کی مناسبت سے آپ نے اپنے چند خصائص خود بیان فرمائے ۔غور سے پڑھو، ارشاد فرمایا:
"میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر کوئی فخر نہیں کرتا اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور اس جھنڈے کے نیچے (حضرت ) آدم اور سارے انبیائے کرام علیہم السلام ہوں گے اور اس پر کوئی فخر نہیں کرتااور قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول کی جائیگی وہ میں ہوں گا اور اس پر بھی کوئی فخر نہیں کرتا اور سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوانے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے جنت میں مَیںاور میری امت کے فقراء داخل ہو ںگے اور اس پر بھی کوئی فخر نہیں کرتا اور میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم ہوں ۔ اولین اور آخرین میں اور کوئی فخر نہیں کرتا ۔"(العطور المجموعہ)۔
مشکوٰۃ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ حبیب اللہ کا لقب سب سے اونچا ہے اور وہ اللہ کا محبوب ہونا ہے ایک خاص محبت کے ساتھ جو حضور کے ساتھ ہی مخصوص ہے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ رسول اللہ کے لئے ایک مقام یہ بھی ہے کہ شفاعت کے میدان میں عرش معلّٰی کے دائیں جانب ہو ں گے جس پر اولین و آخرین سب کو رشک ہوگا ۔
ایک اور حدیث میں ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
"جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا مجھے پہنایا جائیگا ، پھر میں عرش کی دائیں طرف کھڑا ہوں گا۔ اس جگہ مخلوق میں سے کوئی بھی میرے سوا نہیں کھڑا ہوگا ۔ "
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :
" أنََا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلاَ فَخْرَ " ۔
"میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا ۔"
دیا ہے حق نے تجھے سب سے مرتبہ عالی
کیا ہے سارے بڑے چھوٹوں کا سردار
نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ۔ اس رحمت عامہ میں مؤمن، کافر اور ساری مخلوق شامل ہے اور مؤمنین کیلئے خاص طور پر رؤف ورحیم بنایا ۔ خالق کا ئنات کا ارشاد ہے:وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً الِّلْعالَمِیْن۔
" عالمین"عالَم کی جمع ہے، جس میں ساری مخلوقات: انسان، جن، حیوانات، جمادات سب داخل ہیں ۔
رسول اللہ کا ان سب چیزوں کیلئے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کا ئنات کی حقیقی روح اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائیگی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہیگا تو ان سب چیزوں کو موت یعنی قیامت آجائیگی اور جب ذکرُ اللہ و عبادت کا ان سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہو گیا تو رسول اللہ کا ان سب چیزوں کیلئے رحمت ہونا خود بخود ظاہر ہوگیا ۔رسول اللہ کا ارشاد ہے" اِنَّمَا اَ نَا رَحْمَۃٌ مُہْداۃٌ "،یعنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت ہوں ( اخرجہ ابن عساکر عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا"أنا رَحْمَۃٌ مُہْداۃٌ بِرَفْعِ قَوْمٍ وَخَفْضِ آخَرِیْن"، یعنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت ہوں تاکہ ( اللہ کے حکم ماننے والی ) ایک قوم کو سر بلند کروں اور دوسری قوم ( جو اللہ کے احکام ماننے والی نہیں ) کو پست کردوں ( ابن کثیر )۔
رسول کا ادب کرنے کی غیر معمولی اہمیت:
اللہ جل شانہ کے نزدیک رسول اللہ کے ادب و احترام کی اتنی اہمیت ہے کہ آپ سے نہیں بلکہ آپ کے سامنے آپس میں بلند آوازسے بولنے پر حبط اعمال کی وعید آئی ہے اور ادب کے ساتھ پست آواز رکھنے والوں کو حقیقی متقی قرار دیا :
"اے ایمان والو!تم اپنی آوازیں پیغمبر ( )کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور ان سے ایسے کھل کر مت بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو، بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ( ) کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کیلئے خالص کر دیا ۔" (الحجرات32)۔
اس آیت کا شان نزول بخاری شریف میں ہے۔ ایک مرتبہ بنی تمیم کے لوگ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ مشورہ ہو رہا تھا کہ اس قبیلہ پر حاکم کس کو بنایا جائے ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے قعقاع بن معبد ؓ کی نسبت رائے دی اور حضرت عمر ؓنے اقرع بن حابس ؓ کی رائے دی ۔ا س معاملہ میں شیخین رضی اللہ عنہما کے مابین آپ کی مجلس میں گفتگو ہوگئی اوراس میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ یعنی حضور سے براہ راست نہیں بلکہ صرف مجلس مبارک میں آپس ہی میں بلند آواز سے گفتگو کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی سخت تنبیہ ہوئی کہ اے ایمان والو! اگر تم سے یہ حرکت ہوئی تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ تمہارے اعمال حبط ہو جائیں گے اور تمہیں اس بات کا احساس بھی نہ ہوگا ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ" حبط اعمال" یعنی سابقہ اعمال صالحہ کو ضائع کر دینے والی چیز تو باتفاق اہل ِ سنت والجماعت صرف کفر ہے ۔ کسی اور معصیت سے دوسرے اعمال ضائع نہیں ہوتے اور یہاں خطاب مؤمنین اور صحابہ کرام ؓ کو ہے جس سے اس فعل کا کفر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو" حبط اعمال" کیسا ہوا ؟ دوسری آیت کے آخر میں"وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ"ہے کہ تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہوگی ۔ ایمان کی طرح کفر تو اختیاری چیز ہے ۔ جب اس کی خبر تک نہ ہوگی تو اس پر کفر کی سزا کیسے ہوگی ۔
حکیم الامت تھانوی ؒ رحمہ اللہ بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ مسلمانو!تم رسول اللہ کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرنے اور بے محابا جہر کرنے سے بچو کیو نکہ ایسا کرنے میں خطرہ ہے کہ تمہارے اعمال حبط اور ضائع ہو جائیں اور وہ خطرہ اس لئے ہے کہ رسول اللہ سے پیش قدمی یا آپ کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کر کے مخاطب کرنا ایک ایسا امر ہے جس سے رسول اللہ کی شان میں گستاخی اور بے ا دبی ہونے کا بھی احتمال ہے جو سبب ہے ایذائے رسول کا ۔ اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ با لقصد کوئی ایسا کام کریں جو آپ کی ایذاء کا سبب بنے لیکن بعض اعمال جیسے تقدم اور رفع صوت اگرچہ بقصد ایذاء نہ ہوں پھر بھی ان سے ایذاء کا احتما ل ہے اس لئے ان کو مطلقا ً ممنوع اور معصیت قرار دیا ہے اور بعض معصیتوں کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کرنے والے سے توبہ او ر اعمال صالحہ کی توفیق سلب ہو جاتی ہے اور وہ گناہوں میں منہمک ہو کر انجام کار کفر تک پہنچ جاتا ہے جو سبب ہے حبط اعمال کا ۔ اور کرنے والے نے چونکہ اس کا قصد نہ کیا تھا اس لئے اس کو اس کی خبر بھی ہو گی کہ اس ابتلاء کفر اور حبط اعمال کا اصل سبب کیا ہے ( بیان القرآن ، حکیم الامت تھانوی ؒ) ۔
رسول اللہ کے امت پر بہت سے حقوق ہیں ۔ مثلاً آپ کو سچا رسول ماننا ۔آپ کی اتباع کرنا ۔آپ سے سب سے زیادہ محبت کرنا،آپ کا ادب کرنا ،آپ پر درود وسلام بھیجنا وغیرہ لیکن آپ کے سامنے زور سے بولنا ایک ایسی بے ادبی تھی جو بعض اوقات بے ادبی میں شمار نہیں ہو تی چنانچہ حضوراقدس نے مذکورہ آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنے سامنے زور سے بولنے سے کبھی منع نہیں فرمایا کیو نکہ اپنے متعلق ایسے آداب کی تعلیم دینے میں حضور کو حیا ء مانع ہو تی تھی جس کو اللہ فرماتے ہیں "اِنَّ ذَالِکُمْ کَانَ یُؤذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْٖی مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لاَ یَسْتَحْیٖٖ مِنَ الْحَقِ " حضور اقدس تو اپنے بارے میں ایذاء گوارہ فرمالیتے تھے لیکن حیاء کی وجہ سے اظہار نہیںفرماتے تھے اور عام طور پر اتنی سی بات کہ آواز بلند کرنا بے ادبی ہے شاید عام طور پر سمجھا بھی نہ جاتا ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کو اس بلا قصد بے ادبی پر متنبہ کردیا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے معاملے میں کسی بڑے سے بڑے کی معمولی کو تاہی اور وہ بھی بلا شعور اور دینی مصلحت کے جذبہ سے سرزد ہونے پر بھی معاف نہیں فرماتا ۔ یہ ڈانٹ اگر عام دیہاتی مسلمان کے معاملے میں ہوتی تو ا س کا دنیا پر وہ اثر نہ ہوتا جو حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی وجہ سے ہوا کہ ایک سناٹا چھا گیا ۔
مندرجہ ذیل باتوں پر غور کریں ۔
(1) حضور کے سامنے آواز بلند کرنے میں حضور کے ایک حق یعنی ادب و عظمت میں کمی ہو جانے کا احتمال تھا ۔ احتمال اس لئے کہ آواز بلند کرنا ہمیشہ ناگواری کا باعث نہیں ہوا کرتا بلکہ کبھی اس سے ناگواری ہوتی ہے ، کبھی نہیں ہوتی ۔
(2) آواز بلند کرنے میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی طرف سے بے ادبی کی نیت ہونے کا کوئی وہم بھی نہیں کر سکتا ۔
(3) آواز بلند کرنے کی ضرورت دینی فائدے کیلئے ہوئی کہ ہر شخص اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ دینی فائدے کیلئے دوسرے پر زور ڈالتا تھا، اس میں دینی جذبہ اور دینی مصلحت کے جذبہ میں ایک عام ادب کا خیال نہیں رہا ۔
(4)اس بات کا لحاظ نہ رکھنے کی بھول حضرات شیخین رضی اللہ عنہما سے ہوئی جن کا مرتبہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد با لاتفاق تمام انسانوں سے افضل ہے لیکن اللہ پاک نے اپنے حبیب کے حقوق میں ادنیٰ لاپرواہی پر ان بڑے حضرات کو بھی معاف نہیں فرمایا بلکہ ایسی خطرناک وعید فرمائی جو کفر پر ہوا کرتی ہے کیونکہ اللہ کے حبیب() ہونے کا مطلب ایک خاص محبت کے ساتھ اللہ کا محبوب ہونا ہے جو کہ حضور اقدس ہی کے ساتھ مخصوص ہے ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین با وجود یکہ ہر وقت ہر حال میں آنحضرت کے شریک کار رہتے تھے اور ایسی حالت میں احترام وتعظیم کے آداب ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ان کا یہ حال تھا کہ آیت مذکورہ نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب آنحضرت کی خدمت میں کچھ عرض کرتے تو اس طرح بولتے کہ جیسے کوئی پوشیدہ بات کو آہستہ کہا کرتا ہے یہی حال حضرت عمر فاروق ؓ کا تھا ( الشفاء) ۔
ائمہ اعلام اس حکم " لاَ تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ "(لوگو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ) دوام کیلئے قرار دیتے ہیں ۔ حدیث نبوی صوت النبی ہے ۔ حدیث پاک کے ہوتے ہوئے اپنی قال وقیل کو پیش کرنا یا اپنی رائے اور سمجھ کو شامل کرنا صوت النبی پر اپنی صوت کو بلند کرنا ہے ۔نہی بالا کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح بھی فرما ئی ہے جو ان آداب کی پابندی کرتے ہیں ۔ فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ ،اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْویٰ ،یعنی:جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آوازکو پست رکھتے ہیں ، یہ وہی ہیں جن کے دلوں کا امتحان اللہ تعالیٰ نے تقویٰ میں لیا ہے۔ اسی طرح حدیث پاک" لاَ یؤ ِمنُ اَحدُکمْ" فرمایا رسول اللہ نے کہ بندہ ایماندار نہیں ہوتا جب تک میرے ساتھ اتنی محبت نہ رکھے کہ تمام اہل وعیال اور تمام آدمیوں سے بھی زیادہ ( روایت حضرت انس ؓ ، مسلم ) ۔ بخاری میںسیدنا عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ !بے شک مجھ کو آپ کے ساتھ سب چیزوں سے زیادہ محبت ہے بجز اپنی جان کے ( یعنی اپنی جان کے برابر آپ کی محبت معلوم نہیں ہوتی )تو آپ نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ایمان دار نہ ہونگے جب تک میرے ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہ رکھو گے ۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا :اب تو آپ کے ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت معلوم ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا : تم پورے ایماندار ہو اے عمر ۔
حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس بات کو آسانی سے یوں سمجھو کہ حضرت عمر ؓ نے اول غور نہیں کیا تھا ۔ یہ خیال کیا کہ اپنی تکلیف سے جتنا اثر ہوتا ہے دوسرے کی تکلیف سے اتنا اثر نہیں ہوتا اسلئے اپنی جان زیادہ پیاری معلوم ہوئی ،پھر سوچنے پر معلوم ہوا کہ اگر جان دینے کا موقع آ جائے تو یقینی بات ہے کہ حضور اقدس کی جان بچا لینے کیلئے ہر مسلمان اپنی جان دینے کو تیار ہو جائیگا۔ اسی طرح آپ کے دین پر بھی جان دینے سے کبھی منہ نہ موڑیگا تو اس طرح آپ جان سے بھی زیادہ پیارے ہوئے ( حیاۃ المسلمین ) ۔
حضرت عمر ؓ کا جواب جو ابوبکر صدیق ؓ کے بعد امت میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ پر فائز ہیں ، ٹھیک اس وقت ہوا جب حضور نے قسم کھاکر زور سے ارشاد فرمایا ’’ ایماندار نہ ہونگے ‘‘۔ حضرت عمر ؓ کو اپنی غلط فہمی اور وہم پر تنبیہ ہوئی اور غور کیا ۔انہوں نے بھی قسم کھا کر اصل حقیقت ظاہر فرمادی اور رسول اللہ کے تصدیق فرمانے پر مطمئن ہوگئے۔
رسو ل اللہ کی اطاعت اور اتباع تو امت پر فرض ہونا ہی چاہئے تھا کیونکہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بھیجنے کا مقصد ہی اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا لیکن حق تعالیٰ نے ہمارے رسول مقبول کے بارے میں صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ امت پر آپ کی تعظیم وتوقیر اور احترام وادب کو بھی لازم قرار دیا اور قرآن کریم میں جا بجا اسکے آداب سکھائے ہیں ۔ اللہ پاک نے شعائراللہ کی تعظیم کرنے کو تقویٰ کی علامت قرار دیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
" وَمَن یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِ نَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ "۔
اللہ کے حبیب اعظم شعائر اللہ سے ہے ۔ سورۃ توبہ میں ہے "وَمَا کَانَ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَھُم مِّنَ الْاَعْرَابِ اَن یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَرْغَبُوْنَ عَنْ نَّفْسِہٖ " ،یعنیمدینہ کے رہنے والوں اور جو دیہاتی ان کے گرد وپیش رہتے ہیں ، ان کو یہ زیب نہ تھا کہ رسول اللہ کا ساتھ نہ دیں اور اپنی جان سے عزیز سمجھیں ۔
سورۃ احزاب میں ہے:
وَمَاکاَنَ لَکُمْ اَنْ تُوْذُو ْا رَسُولَ اللّٰہِ… الیٰ قولہ تعالیٰ اِنَّ الَّذِیْنَ یُوْذُوْ نَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَھُمْ عَذاَباً مُّھِیْنًا۔’’تم کو( کسی امر میں ) جائز نہیںکہ رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ ،بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اورا س کے رسول کو قصداً ایذیت دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
سورۃ فتح میں ہے :
"اے محمد ( )! ہم نے آپ کو اعمال امت پر قیامت کے دن گواہی دینے والا عموماً اور دنیا میں خصوصاً مسلمانوں کیلئے بشارت دینے والا اور کافروں کیلئے ڈرانے والا کر کے بھیجا ہے اور اے مسلمانو ! ہم نے ان کو اس لئے رسول بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کے دین کی مدد کرو اور اسکی تعظیم کرو ( عقیدہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کو موصوف با لکمالات منزہ عن النقائص سمجھو اور عملاً کہ اطاعت کرو ) اور صبح وشام اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہو ۔ "
( مرتب : ڈاکٹر سید اشرف الدین ۔مدینہ منورہ)
(جاری ہے)