اوورسیز پاکستانیوں کیلئے خصوصی بانڈز اور انویسٹمنٹ بینک
کراچی (صلاح الدین حیدر) وزیراعظم عمران خان کتنا بھی لیکچر دے ڈالیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے اور چھوٹے تاجروں کے لئے آسانیاں پیدا کررہے ہیں۔ مالی طور پر بہت ساری کمزوریاں ہر ایک پر ظاہر ہیں۔ اب حکومت نے اخراجات اور آمدنی کو ہموار کرنے کے لئے بیرونی ممالک میں رہائش پذیر یعنی اوورسیز پاکستانیوں کو 3 بلین ڈالر کے بانڈز فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ یہ بانڈز اسی مہینے کے آخر یا پھر اگلے سال جاری کردیا جائے گا۔ اس وقت لاکھوں پاکستانی بیرونی ممالک میں قیام پذیر ہیں ان میں سے اچھے خاصے دولت مند ہیں جو پاکستان کے لئے ہر وقت بے چین رہتے ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن حالات مفید نہ ہونے یا رشوت خوری سے پیچھے ہٹ جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں عمران کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بھی امید ہو چلی ہے کہ شاید ایک نیک نیت اور ایماندار انتظامیہ ان کی سرپرستی کرے اور ملک میں باہر رکھا ہوا بے تحاشہ پیسہ قومی خزانے میں جمع ہوکر صنعتوں اور مختلف منصوبوں میں اضافہ کر سکے۔ اگر ایسا ہوا تو غربت کے خاتمے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔معیشت کو بھی استحکام نصیب ہوگامگر کامیابی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب حکمرانوں کو احساس ہو کہ بیرونی ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کی خواہشات کو مدنظر رکھنا پڑے گا۔ 3 بلین ڈالر جمع کرنا کوئی مذاق نہیں ۔ یونان کی مثال ہمارے سامنے ہیں جہاں 2011ءمیں اس طرح کے بانڈز امریکہ میں فروخت کے لئے پیش کیا گیا لیکن ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ حکومت ابھی تک ماہرین کی نظر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ برآمدات اور بیرون ملک سے بھیجے جانے والی رقوم تقریباً یکساں ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی بھرپور ترقی سے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ انہیں اپنی حکومت پر اعتماد ہو کہ ان کی محنت و مشقت کی کمائی بیکار نہیں جائے گی۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے جب نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ کا نعرہ بلند کیا۔ 8 ارب روپے بیرون ملک سے پاکستانیوں نے بھیجے لیکن سب ضائع کردئیے گئے۔ لوگوں کی امید ٹوٹ جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ماضی سے سبق سیکھنا ہے تو ہر بات پر خاص توجہ دینی ہوگی۔ اب تک تو حکومت اکثر ماہرین کی نظر میں سست روی کا شکار ہے۔ بیش قیمت وقت فضول باتوں میں ضائع کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے دور حکومت میں برآمدات کنندگان کو خاطر خواہ رقم فراہم کی۔ وہ ہمارے اصل سرمایہ کار کو یکسر بھول گئے جو پاکستان میں پیسہ لانے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ اس سال پہلے 6 ماہ میں 9 بلین ڈالر ترسیلات زر بیرون ملک پاکستانیوں سے حاصل ہوئی جو کہ پچھلے سال انہی حالات سے ایک ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ یہ بہت حوصلہ افزا بات ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کی قومی خدمت کا واضح ثبوت ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے علیحدہ سے انویسٹمنٹ بینک بنا دیا جائے۔ ملکی برآمدات پچھلے سال کے پہلے 6 ماہ میں 9.21 بلین ڈالر تھی جو کہ صرف 24 ملین ڈالر اس کے پچھلے سال سے بہتر تھی لیکن ماہانہ محض 2 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ انویسٹمنٹ بینک غلط طریقوں سے پاکستانی پیسہ بھیجنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہے گا جو کہ ملکی مفاد میں ہے۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے انہیں کافی سہو لتیں دینے کی ضرورت ہے۔ نئے بانڈز یورو بانڈ کی جگہ لیں گے۔ نئے بانڈز 3 اور 5 سال کے لئے ہوں گے۔ ان پر 5 اور 5.5 فیصد منافع ہوگا اور شروع میں یہ بانڈز امریکہ اور انگلستان میں جاری کیا جائے گا۔ پچھلے 6 ماہ میں امریکہ سے پاکستانیوں نے 33 فیصد رقم زیادہ بھیجی ہے جس کی وجہ سے حکومت کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ متحدہ عرب امارات سے گو کہ پاکستانیوں کی تعداد میں اچھی خاصی واپسی ہوئی ہے لیکن ان کی بھیجی ہوئی رقم میں 10 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ۔ 82 فیصد رقم صرف 5 ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، انگلستان اور ملائیشیا سے آتی ہے۔ حکومت کو یہ بات پیش نظر رکھنی پڑے گی۔