امریکی کانگریس کے ارکان کے نام کھلا پیغام
ڈاکٹر عبداللہ بن موسیٰ الطایر ۔ الجزیرہ
امریکی کانگریس کے معزز اراکین آپ حضرات امریکی عوام کے نمائندے ہیں۔ قانون سازی اور حکومت کی کارکردگی کی نگرانی کیلئے آپ منتخب کئے گئے ہیں۔ یہ آپ کی جمہوریت ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ آپ نے بھی ٹیکساس میں 26اپریل 2005ءکو طے پانے والی اس دستاویز پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ”دنیا میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کا تقاضا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ مضبوط شراکت قائم کریں۔ عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹیں اور آنے والے عشروں کے دوران دونوں ملکوں کو حاصل ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھائیں“۔
معزز اراکین میں سعودی عرب کی اس کوتاہی پر آپ کی خفگی کو سمجھتا ہوں کہ مملکت نے کانگریس کے معزز اراکین سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ کوتاہی آپ کی قدرو قیمت میں کسی کمی کی خاطر نہیں ہوئی۔ سعودی عرب کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ اس نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے آغازسے لیکر آج تک کبھی آپ کے اندرونی امورمیں مداخلت نہیں کی۔ لہذا رابطہ نہ کرنے سے آپ دکھی نہ ہوں اور نہ ہی آپ اسے اپنی ہستیوں سے تجاہل سمجھیں۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا یہ غیر متزلزل اصول ہے کہ وہ کسی کے اندرونی امور میں مداخلت نہ کرے اور وہ اس کی پابندی کررہا ہے۔ حالانکہ مملکت کو معلوم ہے کہ آپ اپنے صدر کی مرضی کے بغیر کانگریس میں کسی بھی غیر ملکی سربراہ کو بلا سکتے ہیں۔آپ نے باراک اوباما کے زمانے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتنیاہو کو دعوت دیکر یہ اقدام کیا تھا۔ نتنیا ہو نے کانگریس سے خطاب صدر اوباما کی لاعلمی میں کیا تھا۔ اسی طرح صدر ٹرمپ بھی یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے تھے کہ کانگریس کے ارکان نے انکی لاعلمی میں ایک غیر ملکی محکمہ خفیہ کے سربراہ کو مدعو کرلیا تھا۔
روز ویلٹ نے جب یہ کہا تھا کہ انکی آرزو ہے کہ سعودی اور امریکی اپنے مسائل پر بحث دوستوں کی طرح کریں۔ تو انہوں نے کانگریس سے یہ کہتے وقت اجازت نہیں لی تھی ۔ یہ امریکہ کے صدر کی ایک سفارش ہے جسے شاید آپ میں سے اکثر لوگوں نے نہ سنا ہو۔ میں آپ کو تاریخ کے حوالے سے درس دینا نہیں چاہتا۔
امریکہ کساد بازار ی کا شکار ہوا تھا ۔ اخراجات میں کمی آگئی تھی۔ ڈالر کی قدر گھٹ گئی تھی۔ آمدنی کے ذرائع خشک ہوگئے تھے۔ اس وقت امریکہ اور اسکے دشمن سوویت یونین کے درمیان ایسی کوئی دیوار حائل نہیں تھی جو سوویت یونین کے حق میں آپ کو اپنا سب کچھ چھوڑ دینے سے روکے۔ یہ 1974ءکی بات ہے۔ اس وقت صدر نکسن نے آپ لوگوں سے اجازت لئے بغیر اپنے وزیر خزانہ کو موت و حیات کی مہم پر ریاض بھیجا تھا۔ اس وقت سعودی عرب نے آپ کی معیشت کو بچایا تھا اور آپ کی کرنسی ڈالر کو جو گہرے کھڈ میں گرنے جارہا تھاگرنے سے بچایا تھا۔ صدر نکسن نے یہ معاہدہ 4عشروں تک آپ سے خفیہ رکھا۔ اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں کہ آپ کو اس کا علم سب سے آخر میں جاکر ہوا۔
امریکی کانگریس کے معززاراکین ہمارے یہاں شاہی نظام ہے۔ ہمیں اپنی قیادت اچھی لگتی ہے۔ ہم آپ کی اس جمہورت سے بالکل متاثر نہیں۔ جس کا ذکر آپ لوگ کرتے رہتے ہیں۔ اسکے باوجود آپ کی دروغ بیانیوں سے ہمیں جو تکلیف ہوتی ہے اس پر ہم آپ کو معذور سمجھتے ہیں۔ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ امریکی کانگریس کے بعض ارکان ووٹ دہندگان کے شکار کیلئے ہمیں گالیاں نکالتے ہیں۔ کانگریس میں رسائی کے بعدبھی آپ حضرات بند کمروں میں ہمارے ساتھ لنچ کرتے اور شام کے وقت امریکی میڈیا میں ہمیں برا بھلا کہتے ہیں۔
معزز اراکین ہم آپ کی انسانیت نوازی، اپنے رفیق کار جمال خاشقجی پر بہائے جانے والے آپ کے آنسو اور یمن کے بچوں پر آپ کے رونے دھونے کی قدر کرتے ہیں۔ اس موقع پر میں آپ کو یہ یاد دلا دوں کہ آپ کے ملک امریکہ نے بدترین انسانیت سوز جرائم کی تاریخ رقم کررکھی ہے۔ ابو غریب جیل، گوانٹانامو جیل اور جنگی قلعہ کے جرائم ناقابل فراموش ہیں۔
آپ نے نئے دور کی بنیاد ڈالی ۔ بے قصور انسانوں کا خون بہایا۔ انسانی وقار کو مجروح کیا تب سے قتل و غارتگری آپ کے لئے جائز بنی ہوئی ہے۔ میں دہشتگردی کے خلاف مشترکہ معرکے اورتیل کے نرخوں میں استحکام کے حوالے سے اپنے ملک کے کردار کا تذکرہ بھی نہیں کرونگا۔ البتہ یہ ضرورکہوں گا کہ آپ ہمارے خواب ہم سے نہ چھینیں ہمارے نوجوانوں کو جو آبادی کا 70فیصد ہیں۔اپنا دشمن نہ بنائیں۔ ہمیں اپنے سے نفرت سے بچانے کا اہتمام کریں۔ سعودی عرب ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمان سعودی عرب کو اپنا وطن اور اس کے قائد اعلی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭