پیر 18دسمبر 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”عکاظ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
امریکی سینیٹ نے سعودی عرب کی بابت نہ صرف یہ کہ غلط بیانی سے کام لیا جھوٹے دعوے کئے اورامریکی صدر ٹرمپ کے موقف سے مختلف موقف اپنایا۔ امریکی سینیٹ نے یہ بات بھی واضح کردی کہ وہ اپنے پارلیمانی کردار سے بھی منحرف ہوگئی ہے۔ امریکی کانگریس نے ایسا کام کیا ہے جو قانون ساز ادارے کے شایان شان نہیں۔ پارلیمانی ادارے کا کام اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے نہ کہ سعودی عرب جیسے بااثر بڑے ملک کے ساتھ اپنے مفادات کو داﺅ پر لگادینا۔
بین الاقوامی قانونی اصول یہ ہے کہ کوئی بھی ملک دوسرے خود مختار ملک کے اندرونی امورمیں مداخلت کا مجاز نہیں۔ سعودی دفتر خارجہ کے عہدیدار کے بیان کے مطابق امریکی سینیٹ نے سعودی عرب کے داخلی امور میں مداخلت کرکے بین الاقوامی تعلقات کے باب میں غلط اور خطرناک نظیر قائم کرنے کی سنگین کوشش کی ہے۔
سیاسی پتوں سے کھیلنے کی کوشش نادانی اور سعودی موقف کو مغالطہ آمیز انداز میںسمجھنے کا پتہ دے رہی ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اس بات کا دھیان رکھا کہ اسکی پالیسی بین الاقوامی قانونی نظام سے ہم آہنگ ہو۔ مملکت نے یہ پالیسی یمن ہی نہیں بلکہ اپنے ہر محاذ پر ایسا ہی کیا ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی تنظیمیں اس بات کی شاہد ہیں۔
اس تناظر میں ہم امریکی سینیٹ اور ان کی روش پر چلنے والوں کو یہی کہیں گے وہ اپنے صدر ٹرمپ ، اپنے وزیر خارجہ اور اپنے وزیر دفاع کے وہ بیانات بغور پڑھ لیں جن میں انہوں نے بیک زبان یہ بات کہی ہے کہ سعودی عرب دہشتگردی کے انسداد میں اسٹراٹیجی کردارادا کررہا ہے اور خطے میں ایرانی دخل اندازی سے دو، دو ہاتھ کررہا ہے۔ یاد رکھیئے! امریکی سعودی تعلقات نقب زنی کی تمام تر کوششوںکے باوجود مضبوط اور ناقابل تسخیر رہیں گے۔ اسٹراٹیجک تعلقات کو بگاڑنے کے لئے استعمال ہونے والا گندا دھن اپنے ہدف میں کامیاب نہیں ہوگا۔ پریشر گروپس سے استفادے کی کوششیں ناکام ثابت ہونگی۔