Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتوں کی شاہ خرچیاں

کراچی (صلاح الدین حیدر) پاکستان کے غریب عوام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سے ہی سازشیوں اور مصیبتوں کا شکار رہے ہیں۔ حکومتوں کی شاہ خرچیاں، ٹیکسوں کی بھرمار، تعلیم نہ صحت کی سہولتیں، ان کے مسائل حل ہونے کے بجائے، مشکلات میں اضافہ ہی کرتی رہی ہیں۔اس کی تازہ مثال آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ہے جس نے مالی سال کی رپورٹ ہے جس نے دلخراش راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ صرف ایک مالی سال 2017-18 ءمیں 5.8 کھرب روپے کی بے ضابطگی کی گئیں۔ اخراجات میں اصولوں کا خیال نہیں رکھا گیااس کے بجائے بے دریغ رقم خرچ کی گئیں۔ افسران اور محکموں کے انچارجز کو عوام الناس کی بھلائی کا خیال تک نہیں آتا۔ مال مفت دل بے رحم۔ بس خرچ کرتے چلے جا و۔ اعتراضات جب اٹھیں گے تو دیکھا جائے گا۔ یہی شکایت کسی خاص محکموں سے نہیں بلکہ عمومی طور پر ملتی ہے۔گزشتہ مالی سال میں بے ضابطگی اس سے پہلے سال کے مقابلے میں 87 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت میں 36 وزارتیں ہیں جن کا بجٹ جو قومی اسمبلی پاس کرتی ہے، ایسا لگتا ہے کوئی کنٹرول نہیں اور پیسہ بے وجہ خرچ کیا جارہاہے۔ اب اگر سپریم کورٹ مداخلت کرتی ہے تو پھر چیف جسٹس پر انگلیاں اٹھتی ہیں کہ وہ بجائے عدالت میں مقدمات پر توجہ دینے کے بجائے ان باتوں کو اہمیت دینے میں وقت کا ضیاع کرتے ہیں جس سے ان کا کوئی واسطہ تک نہیں۔
آڈیٹر جنرل ایک آئینی عہدہ ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ حکومتی محکموں اور اداروں پر نظر رکھے اور عوام کے پیسے کو بے جا اصراف سے تحفظ دے سکے۔ اس نے اپنی تازہ ترین رپورٹ نے جو کہ آئین کے آرٹیکل 171 کے تحت صدر مملکت اور پارلیمنٹ میں پیش کی گئی اس بات کی تصدیق کی کہ 60 وفاقی وزارتوں اور اداروں میں سے 44 نے اپنے اوپر کوئی کنٹرول نہیں رکھا۔ 69.4 ارب روپے کی خطیر رقم ان سے دوبارہ وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے گئی۔ 39 ایسے ادارے ہیں جن کے اخراجات پر کوئی کنٹرول نہیں جو کہ شرم کی بات ہے۔ 5.77 کھرب روپے بیرونی ممالک میں سفر اور سفارت خانوں پر کئے گئے۔ 1.3 بلین روپے کو بغیر سوچے سمجھے خرچ کئے گئے۔ آڈیٹر جنرل کو اس بات کا بھی قلق ہے کہ مختلف وزارتوں اور محکموں نے 109.5 ارب روپے بچ جانے کے باوجود خزانے میں جمع نہیں کروائے اور ان کا حساب کتاب ہی نہیں ملتا۔
رپورٹ کے پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے بعد اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ عوام سے جمع کئے گئے ٹیکسوں کو کس بے دردی سے خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر حکومتی ادارے اخراجات پر کنٹرول کریں تو بے چارے عوام جن پربالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ہے اور جو کہ زندگی مشکل سے گزارتے ہیں۔ کافی حد تک مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ صرف فرض کا احساس ہونا چاہیے۔ حکومت بیرونی قرضوں کے دباو کے تحت سانس لینا بھی غیرمحفوظ سمجھتی ہے تو دوسری طرف صدر مملکت، وزیراعظم اور وزراءکے بیرونی دوروں پر بلا روک ٹوک خرچ کر دیا جاتا ہے، جسے با آسانی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں وزراءکے بیرونی دورے یا تو بے مقصد کئے جاتے یا پھر ان کے وفد میں 100/150 افراد جن کا کوئی کام نہیں محض تفریحاً ساتھ جاتے تھے۔ ان کے قیام و طعام کا خرچ حکومت برداشت کرتی تھی۔ صدر ایوب بیرونی دوروں پر کسی مقصد کے تحت جایا کرتے تھے، پھر ان کے وفد میں 8 سے 10 لوگ شامل ہوتے تھے اور پھر صدرہونے کے باوجود وہ پی آئی کی کمرشل فلائٹ سے سفر کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے زمانے سے لے کر نواز شریف کے حالیہ دور حکومت تک خصوصی طیاروں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ پھر ہوٹل اور دوسرے اخراجات کیسے کنٹرول میں ہوتے ۔ انہیں عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ ان پر خاموش رہتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ بے جا اسراف کو حقوق حکمرانی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ شکر ہے کہ عمران نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اس پر خصوصی توجہ دی اور اب حکومتی اخراجات کافی حد تک کم ہوگئے ۔
 

شیئر: