Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقتصادی بدحالیاں

***خلیل احمد نینی تال والا***
پی ٹی آئی کے 100دن گزرے ہوئے ابھی 30دن بھی نہیں گزرے ہیں ۔مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے معزز اراکین میں تلخ جملوںکی لے دے شروع ہوچکی ہے۔ خاص طور پر محترمہ مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے یہ حکومت جھوٹی ہے اور اس نے معیشت کا بھٹہ بٹھادیا ہے جبکہ ہماری حکومت نے 5سال میں پاکستان میں معیشت کو مضبو ط بنایا تھا ۔جواب میں وزیراطلاعات فواد چوہدری فرماتے ہیں اُس سچی حکومت نے پورے پاکستان کے اثاثے آئی ایم ایف کو گروی رکھ کر پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لے کر کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور اب اس ڈر سے اُس کو جیل کی ہوا نہ کھانی پڑے ۔اس بُرے وقت میں شریف فیملی کا ساتھ چھوڑ کر اسحاق ڈار لندن میں نا م نہاد بیمار بن کر نیب اور عدلیہ سے منہ چھپا رہے ہیں ۔رانا ثناء اللہ اپنا سارا بخار شیخ رشید پر اتارتے ہوئے ان کو بنارسی ٹھگ قرار دیتے ہیں تو جواب میں شیخ رشید صاحب سعد رفیق پر جملے کستے ہیں کہ اتنی کرپشن ریلوے میں کی کہ صرف ریل کی پٹریاں رہ گئی ہیں ۔شہباز شریف کے جیل جانے کے بعد مسلم لیگ ن سکتے میں ہے کیونکہ اب حمزہ شہباز کا نمبر بھی نزدیک نظر آرہا ہے۔ ایف آئی اے نے اُن کو قطر جانے سے روک دیا ہے ۔فی الحال نوازشریف ،مریم نواز اور صفدر گم سم ہیں اور 24 دسمبر کا انتظار کررہے ہیں کہ عدلیہ سے اُن کے کیسوں کا فیصلہ آنے والا ہے یہی کچھ حال پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور صاحبہ کا بھی ہے۔  24دسمبر کوفیصلہ متوقع ہے مگر زرداری صاحب بہادری کا مظاہرہ کرکے اب اداروں کوللکار رہے ہیں جبکہ فواد چوہدری میڈیا پر برملا کہہ چکے ہیں کہ میاں نوازشریف اورآصف علی زرداری کی سیاست ختم ہوچکی ہے ۔ بقیہ دن اُن کو اب جیل میں گزارنے پڑیں گے ۔قوم کو ان کے جیل آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھربوں کی کرپشن کے پیسے کیسے وصول ہونگے؟ سب اس کرپشن سے منکر ہیں اور اس کو سیاسی انتقام کا نام دے رہے ہیں اور تو اور اب تو ہمارے چند مقبول ترین لکھاری بھی بحریہ ٹائیکون ملک ریاض سمیت سب کو بے قصور سمجھ کر اُن پر کئی کالم بھی لکھ چکے ہیں ۔قوم حیران اور پریشان ہے۔ ہر روز ایک نئی کرپشن کی کہانی میڈیا سے سننے کو ملتی ہے۔ اب انور مجید کیس سب سے بڑی کرپشن کیس بن کر سامنے آیا ہے وہ بھی انکاری ہیں ۔11سال میں حکومت سندھ کی مہربانیوں سے ایک شوگر مل سے 11شوگر ملیں اور 10بڑی انڈسٹریاں ،پاور پلانٹس کیسے وجود میں آگئے ۔اب تو سندھ کے وزیر اعلیٰ مُراد علی شاہ اور سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کانام بھی سرفہرست ہے جنہوں نے انور مجید اینڈ کمپنی پر مہربانیوں کے جال پھیلا کر پاکستان کی سب سے بڑی شخصیت بنادیا ہے ۔نیب اسپیکر سندھ اسمبلی سراج دُرانی اور ان کے خاندان کے اثاثے جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔نثارکھوڑوبھی اس کی لپیٹ میں آتے نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان 10سالوں میں آج تک کھربوں کی ثابت کرپشن کیسوں میں ایک سیاست دان کو سزا ہوئی نہ کوئی پیسہ اُن سے وصول ہوا تو پھر اس اُتار چڑھائو کا کیا فائدہ قوم کو حاصل ہوا ؟ قوم کے نام قرضوں میں صرف اضافہ ہی ہوا ۔ہمارے قانونی جھول سے سب نے فائدہ اُٹھایا، اب یہ پختہ کرپشن پروف ہوچکے ہیں۔ چند ماہ اخبارات ،ٹیلی ویژن کی سرخیاں عوام کو دیکھنے کو ملتی ہیں اور پھر ٹائیں ٹائیں فش ۔فی لحال مولانا فضل الرحمن اور عبدالصمد اچکزئی جن پر میاں نواز شریف نے اپنے دُور اقتدار میں عنایتوں کی بارشیںکی تھیں ابھی تک ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی گرفت سے دُور ہیں ۔پی ٹی آئی سے محاذ آرائی سے اجتناب کررہے ہیں البتہ بیچ بیچ میں خورشید شاہ کو لقمہ دیتے رہتے ہیں ۔اب میں آتاہوں تبدیلیوں کی طرف۔ سب سے بڑی نابلد پی ٹی آئی کی ٹیم جس کو پہلی احتسابی میٹنگ میں اپنے مرکزی وزراء کو 100فیصد نمبر دے کر اور مغرور کردیا ہے اور اتحادیوں پر تنقید کرکے اُن کو فرار کا راستہ دکھا دیا ہے ۔یہی عمل صوبائی سطح پر پنجاب میں دہرایا گیا ہے ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کون ہیں ؟اگر مرکزی وزراء کی کارکردگی 100فیصد تھی تو 2مرتبہ بجلی ،گیس ،پیٹرول ،ڈیزل کے دام کیوں بڑھائے گئے؟ڈیزل اور پیٹرول دنیا میں سستا اور بقول وزیرخزانہ اسد عمر سعودی عرب سے اُدھار تیل کے علاوہ 2ارب ڈالر اُدھار مل چکے ہیں تو تیسری مرتبہ 130ارب کا اضافی بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جارہا ہے اور ڈالر کو بے لگام کیوں چھوڑ دیا گیا ہے ۔قوم کو منی بجٹ لانے کا ڈراوا کیوں دیا جارہا ہے۔ یہ کیسا وزیر خزانہ پالا جارہا ہے جس کو ڈالر کے بڑھنے کا بھی علم پوری طرح نہ ہو۔باہر کے باہر اسٹیٹ بنک از خود ایک رات میں 140روپے کی سطح تک بغیر وزیرخزانہ کی منظوری ہیجان برپا کردیتا ہے ۔دوسری اہم تبدیلی اس ڈالر کی وجہ سے صنعت کاری رُک گئی ہے، تمام بازار اور کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں ۔عوام کی قوت برداشت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ایک بڑا غلط فیصلہ توتوڑپھوڑ کا برداشت کرلیا مگر ایسا ہی دوسرا فیصلہ عوام کو سڑکوں پر لے آئے گا ۔کب تک پی ٹی آئی مصنوعی کندھوں پر بیٹھ کر حکومت چلائے گی، کوئی مثبت تبدیلی نظر تو آتی ۔وزیراعظم عمران خان اور وزیرخزانہ جلد خوشخبریوں کی روزِاول سے نویدیں سُنا سُنا کر کب تک عوام کو تسلیاں دیتے رہیں گے ۔ایک قدم آئی ایم ایف کی طرف بڑھاتے ہیں، دوسرے دن جھٹلاکر قوم کو بیوقوف بناتے ہیں ۔ہمارے وزیراطلاعات کی زبان اور مسلم لیگ ن کی وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب کی زبانوں میں کوئی فرق نہیں لگتا سوائے مذکر اور مونث کے۔ کیا ایسی ہی گفتار کے لئے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے تھے؟ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں