Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

8،8آنسو،چہرہ سرخ ، آنکھیں متورم ، ناک پکوڑا

گوروں کے کرتوت خواہ کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں، اچھے ہی لگتے ہیں
شہزاد اعظم
گورے ملکوں اور گوروں کی واقعی کیا بات ہے، ان کی ہر شے الگ ہی تاثر قائم کرتی ہے۔ اچھی تو اچھی،اُن ملکوں اور وہاں کے گوروں کے کرتوت خواہ کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں، اچھے ہی لگتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم ایک آدھ مثال پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بلا شبہ انتہائی پُرتاثیر ہونے کے باعث نہ صرف بے حد کارگر ثابت ہوگی بلکہ ایسے لوگوں کی سمجھ میں بھی آجائے گی جنہیں دنیا کی کوئی زبان یا کوئی بات کبھی سمجھ ہی نہیں آئی ۔ہم یہاں چونکہ ”مظلوم“ کی مثال پیش کر رہے ہیں اس لئے خاتون کا ذکر ہوگا کیونکہ دنیا بھر میں مظلوم سمجھے جانیوالے انسانوں کی 99فیصد تعداد خواتین پر مشتمل ہوتی ہے۔ اب آئیے مثال کی طرف۔ ایک مرتبہ ہم نے چیچوکی ملیاں کی ایک گرہستن کو چیختے چلاتے دیکھا۔ اس سے آہ و بکا کا سبب پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے شوہر نے اسے مارا پیٹا ہے۔ وہ رو رو کر پڑوسنوں کو اپنا دکھڑا سنا رہی تھی۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ بار بار دوپٹے کے پلو سے ناک اور آنسو پونچھ رہی تھی ۔وہاں سے گزرنے والے ہمارے ایک ہم عمر دوست نے کہا کہ اسے گھر میں جا کر ”ٹسوے“ بہانے چاہئیں خواہ مخواہ میں سب کے سامنے تماشا لگا رکھا ہے۔ 8،8آنسو رونے کے باعث دیکھیں ذرا اس کا چہرہ سرخ ، آنکھیں متورم اور ناک پکوڑا ہو رہی ہے۔اگر میاں اتنا ہی ظالم اور بے حس ہے تو اسے چھوڑ دینا چاہئے۔ ان جیسے لوگوں نے ہی ہمارے معاشرے میں ”ازدواجی آلودگی“ پھیلا رکھی ہے۔ ان جیسے جوڑوں کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں میں شادی کا شوق ماند پڑنے کا رجحان سر ابھار سکتا ہے۔
کچھ عرصے کے بعد ہم اپنے اُسی دوست کے ساتھ اسلام آباد کے ”نیلگوں خطے“ یعنی ”بلیو ایریا“ میں چہل قدمی کرتے ہوئے حُسنِ موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ وہاں ایک بنگلے کے باہر ٹھنڈے ملک کی گوری پردیسن اپنی غیر پاکستانی ہمسائیوںکے آگے اپنی مظلومیت کا رونا رو رہی تھی ۔ اس کو دیکھ کر ہمارے ہمقدم و ہم عمر دوست نے کہا کہ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وہ جاہل کون ہیں جو عورت پر ظلم ڈھانے کے لئے شادی کرتے ہیں۔ اس بے چاری کو دیکھیں، کتنی مظلوم ہے، میاں کی زیادتیوں پر اشکبار ہے۔ رو رو کر بے چاری کا حال برا ہوگیا ہے۔ کنول چہرے پر سیب جیسی لالی اور نیلی آنکھوں میں سرخ ڈورے پتھر سے پتھر دل انسان کو بھی موم کی طرح پگھلا کر رکھ دیں۔ اس مظلوم کو دیکھئے ٹشو سے ناک اور آنسو پونچھ رہی ہے ، ایسا لگ رہا ہے جیسے کھردرے ٹشو پیپر کے ذریعے گلاب کی پنکھڑیوں پر سے شبنم کے قطرے بے دردی کے ساتھ چنے جا رہے ہوں۔ ایسی شخصیت کو چاہئے کہ وہ اُس ظالم شوہر کو لات مارے اور کسی ایسے شخص سے شادی کر لے جونرم دل ہو، حساس طبیعت کا مالک ہو اور انسانیت کی قدر کرنا جانتا ہو۔معاشرے سے ”ازدواجی جہالت“ دور کرنے کے لئے ہم جیسے لوگوں کو آگے آنا ہوگا تاکہ جب یہ مظلوم خواتین شوہر اور اس کے ظلم سے نجات حاصل کر لیں تو ہم ان سے شادی کریں اور ان کی ایسی قدر کریںجس کی وہ حقدار ہیں۔ہم ان دونوں واقعات میں چپ سادھے اپنے دوست کی باتوں کو قلب و ذہن میں اُتارتے رہے۔
آج ہمارا وہی دوست پہلی دنیا کے ایک سرد ملک میں مقیم ہے اور وہیں کی شہریت اختیار کر چکا ہے۔چند روز قبل ایسا ہوا کہ ہم نے اسے فون کیا مگراس نے خلافِ معمول فون نہیں اٹھایا۔ ہمیں تشویش ہوئی تو وہیں موجود ایک اور بہی خواہ کو ہم نے اس دوست کے گھر جا کر پتہ کرنے کے لئے کہا۔ انہوں نے گھر جا کر عمارت کے چوکیدار سے دریافت کیا کہ فلاں صاحب کس منزل پر رہتے ہیں، ان سے ملنا ہے کیونکہ وہ فون نہیں اٹھا رہے۔ چوکیدار نے نہ صرف اُس بہی خواہ کو گھر کا نمبر بتایا بلکہ پولیس کو بھی فون کر کے بتا دیا کہ 400گھروں پر مشتمل اس عمارت کے ایک گھر میں تنہا مقیم شخص پچھلے ایک گھنٹے سے فون نہیں اٹھا رہا۔بہر حال اس دوران وہ بہی خواہ ہمارے دوست کے گھر پہنچ گئے۔ دروازے پر زور سے دستک دی، انہوں نے دروازہ کھولا ، سب خیریت تھی۔ پتا لگا کہ موصوف کو ڈاکٹر نے دوادی تھی جس سے نیند آگئی تھی۔ہمارے بہی خواہ نے ہمارے اطمینان کے لئے چیٹنگ آن کی اور کیمرہ کھول دیا۔ اسی دوران پولیس گھر پہنچ گئی۔ اس نے حال احوال دریافت کیا۔ابھی وہ واپس نہیں ہوئی تھی کہ پولیس نما ایک اور ایجنسی کے اہلکار خیریت دریافت کرنے آگئے۔ وہ ابھی گئے نہیں تھے کہ ہالی وڈاداکاراﺅں جیسی چندباوردی، انتہائی اسمارٹ اورکمالِ تناسب کی حامل شخصیات وہاں پہنچ گئیں اورحال احوال پوچھنا شروع کر دیا۔ وہاں کی فضاﺅں میں ”ہاﺅ، واﺅ، تھینکس اے لاٹ اورپرے فار یو“جیسی آوازیں گونج رہی تھیں۔ ان سب کے جانے کے بعد ایک فون آیا، دوست نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے نسوانی آواز آئی کہ جس کے ”بولوں کا ترجمہ“ یو ں تھا کہ” میں بے حد پریشان تھی، شکر ہے آپ نے فون اٹھا لیا۔کہو سب کچھ ٹھیک تو ہے ناں؟“ہم نے یہ فون سن کر دوست سے استفسار کیا کہ آپ نے وہاں شادی کر لی اور ہمیں بتایا بھی نہیں؟انہوں نے کہا کون سی شادی ؟ ہم نے کہا کہ ابھی فون پربھابی تھیں ناں؟ انہوں نے کہا ”بھابی نہیں بلکہ ”نامعلوم“ پولیس افسر تھی۔ یہاں پولیس کو جب تک یقین نہ ہوجائے کہ ان کے علاقے میں رہنے والا انسان مکمل خیریت سے ہے، وہ مطمئن نہیں ہوتی، اسے قرار ہی نہیں آتا ۔“یہ سنتے ہی ہمارا انٹرنیٹ رابطہ منقطع ہوگیااور شاید قدرتی طور پر اچھا ہی ہوا کیونکہ رابطہ قائم رہتا تودوست سے مزید تفصیلات سننی پڑتیں اور دل خون کے آنسو رونا شروع کر دیتا کیونکہ جتنا ہو چکا تھا وہی ہماری نفسیات خراب کرنے کے لئے کافی تھا۔ ہمارے ذہن و دل کے مابین مکالمے ہونے لگے۔ دل نے کہا کہ حیرت ہے، اُس گورے ملک کی پولیس والی بھی بھابی کی طرح گفتگو کرتی ہے اور ہمارے ہاں بھابی کو دیکھوتو لگتا ہے پولیس والی بول رہی ہے۔اُن ملکوں میںکوئی چھوٹی موٹی ”چکاری“کی شکل میں معمولی مالی نقصان بھی ہوجائے تو ”نامعلوم“ پولیس والے ملزم کا کھوج لگاکر تمام معلومات سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف ہمارے ہاں دہشت گردی کی انتہائی خوفناک اور بھیانک واردات ہوجائے تو معلومہ پولیس والے اسے ”نامعلوم“ افراد کی کارروائی قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔وہ بے چین اس وقت ہوتے ہیں جب انہیں مجرموں کاپتالگانے کے لئے کہا جائے کیونکہ بظاہر وہ مجرم کا سراغ لگانے میںکسی قسم کی کامیابی کی جانب پیشرفت کو اپنی” توہین“ سمجھتے ہیں۔ کاش ہمارے ہاں بھی مجرم معلوم اور پولیس نامعلوم افراد میں شمار ہونے لگے۔
 

شیئر: