پروفیسر عفت گل اعزاز کی مسحور کن تصنیف”ابھی امید باقی ہے “
محترمہ انتہائی خوبصورت انداز میں مزاح نگاری بھی کرتی ہیں، ان کی تحاریر میں فکاہ کا انداز کہیں نہ کہیں گھات لگائے بیٹھا دکھائی دے جاتا ہے
شہزاد اعظم
کھُلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
شاعر موصوف نے تو بہت پہلے کہا تھا مگر ہم نے کافی عرصے کے بعد پڑھا۔ جب پڑھا تھا، اس وقت سمجھایا بھی گیا تھا مگربات سمجھ میںنہیں آئی تھی پھر یوں ہوا کہ وقت گزرتا گیا۔ پڑھتے پڑھتے ہم دہم میں جا پہنچے۔ہمارے استاد محترم معین الدین یوں تو سائنسی مضامین کے مدرس تھے مگر نجانے وہ کیا کیا جانتے اور کس کس کو پہچانتے اور کیسی کیسی باتیں مانتے تھے۔ ان کے اس علم نے ہمیں اتنا متاثر کر رکھا تھا کہ ہم انہیں عقلِ کل اور خود کو اقلِ کل سمجھنے پر مجبور تھے۔انہوں نے ہی ایک روز فرمایا تھا کہ مذکورہ شعر میں جب بھی سنتا ہوں، اس کے مصرع ثانی میں ”رسوا“ کا لفظ میری سماعتوں کی جراحت کرتا گزر جاتا ہے ۔ کاش اسے یوں بیان کر دیا جاتا کہ :
کھُلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے ابلاغ کر دیا
ہوا یوں کہ ایک روز ہمارے ریاضی کے استاد علالت کے باعث اسکول تشریف نہ لا سکے چنانچہ معین الدین سے کہا گیا کہ وہ جماعت دہم کو ”مائنڈ“ کر لیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا مگر اس دوران انہوں نے ہمیں سائنس وائنس نہیں پڑھائی بلکہ یہ عقدہ وا کیا کہ وہ کسی بھی شخص کے دستخط دیکھ کر اس کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے دعوت دی کہ کوئی بھی طالب علم آئے اور چاک سے تختہ¿ سیاہ پر دستخط کر کے اپنی نشست پر جا بیٹھے۔ میں اس کی شخصیت، سوچ اور کسی حد تک ذہنی کیفیت کے بارے میں حقائق سامنے رکھ دوں گا۔
محترم اتالیق کی باتیں سن کر سب حیران ہوئے ۔ کوئی بھی یہ ہمت نہیں کر پا رہا تھا کہ اس کی شخصیت کے پوشیدہ اوصاف و عیوب سب کے سامنے عیاں ہوں۔اچانک ہماری جرا¿ت مردانہ نے منہ چڑایا، ہم اٹھے، چاک تھاما اور تختہ¿ سیاہ پر اردو میں”شہزاد اعظم“ لکھ کر اپنی نشست میں واپس جا دھنسے۔بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے ہمیں بہت کچھ باور کرا دیا۔ ہمارے استاد محترم نے دستخط دیکھ کر ہماری ذات کے ایسے ایسے پرت کھولے کہ ہم ششدر، حیران، انگشت بدندان، بے زبان، پریشان اور بے جان سے ہو کر رہ گئے۔ کوئی اچھا وصف بیان کیا جاتا تو ہم تفاخر کے ساتھ گردن اکڑاتے، کبھی عیب بیان ہوتا تومحسوس ہوتا کہ ہماری ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ رہی ہے چنانچہ بغلیں جھانکتے، منہ چھپاتے ۔ بہر حال اس روز ہمیں یہ صرف یہ ادراک ہوا کہ ”شعروں کا انتخاب انسان کو کس طرح متعارف کرا سکتا ہے۔“
آج محترم معین الدین کی زبانی اپنی شخصیت کے بے نقاب ہونے کا واقعہ رونما ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیںمگر ہماری آموزش اور تحصیل علم کا عمل آج بھی جاری ہے ۔ ہوا یوں کہ عفت گل اعزاز صاحبہ اپنے شوہر نامدار کے ہمراہ جدہ تشریف لائیں اوراپنے برادر عزیز کے ہاں قیام کیا ۔ ہمیں ان سے انٹرویو لینے کا موقع ملا جو بعد ازاں اردو نیوز کی زینت بھی بنا ۔ اس انٹرویو کے دوران محترمہ عفت گل اعزاز سے گفت و شنید کے تناظر میں ان کی شخصیت ، ان کی قابلیت اور ان کے فن تحریر کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس انٹرویو کو بھی آج خاصا وقت گزر چکا ہے ۔
گزشتہ دنوں یوں ہوا کہ عفت گل اعزاز کی تحریر کردہ کتابیں ان کے برادر محترم کے ہاتھوں ہوتی ہوئی ہم تک پہنچ گئیں ۔ان کے بارے میں ہم کچھ لکھنا چاہتے تھے چنانچہ سوچا کہ روزانہ کی مصروفیات سے وقت نکال کر دو چار ورق روز پڑھ لیا کریں گے اور جب کتاب ختم کر لیں گے تو اپنے خیالات سپرد قرطاس کر دیں گے مگر ہوا یوں کہ ہم نے کتاب کی خواندگی کا آغاز کیا تو لفظوں کے سحر نے ہمیں اپنا اسیر کر لیا اور انجام کار ہم نے ساری کتاب پڑھ کر ہی دم لیا ۔ہم پر یہ عقدہ بھی وا ہو گیا کہ لفظ انسان کی شخصیت کے عکاس اور اس کی ذات کا پرتو ہوتے ہیں۔انسان کی سوچ یا تصور، ایک چہرے کی مانند ہے اور الفاظ اس کا سنگھار، انہیں سلیقے سے برتا جائے تو تصور اک حَسین تصویر کی شکل اختیار کر لیتا ہے اورقاری کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر صاحب تحریر کو ترسیمِ لفظی کا سلیقہ نہ ہو تو اس کا پھوہڑ پن قاری کو اکتاہٹ کا شکار کر دیتا ہے۔
آج جب ہم نے پروفیسر عفت گل اعزاز کی کتاب پڑھی تواس بات پر ہمارا یقین اور پختہ ہو گیاانسان کی تحریر اس کی سوچ کا آئینہ ہوتی ہے کیونکہ ہم نے ماضی میں انٹرویو کے دوران عفت گل اعزاز کی ذات و صفات کے بارے میں جو کچھ اخذ کیا تھا ، ان کی تحریران کی شخصیت کے وہی رموز بیان کر تی دکھائی دے رہی تھی۔پروفیسر عفت گل اعزاز کی کتاب ”ابھی امید باقی ہے “ کے حوالے سے اظہار خیال کی جسارت کی جا رہی ہے ، توجہ فرمائیے :
عفت گل صاحبہ کے قارئین جانتے ہیں کہ محترمہ انتہائی خوبصورت انداز میں مزاح نگاری بھی کرتی ہیں۔ ان کی تحاریر میں فکاہ کا انداز کہیں نہ کہیں گھات لگائے بیٹھا دکھائی دے جاتا ہے۔ موصوفہ کی کتاب ”ابھی امید باقی ہے “ میں مرقوم مضمون ”سادہ ورق “ میں ایسے کردار بیان کئے گئے ہیں جن میں زن و شو کے روابط کی بے ثباتی اور بے قدری کی جھلک نمایاں ہے۔ وہ اہنے کرداروں کے مابین شادی کے لئے استوار ہونے والے روابط کے تناظر میں یوں حقائق بیان کرتی ہیں کہ:
اسے در اصل محبت کرنی ہی نہیں چاہئے تھی۔ اگر کرتا تو ایسی لڑکی سے جو اس کی توقعات پر پوری اتر سکتی اور بھئی یہ پابندی تو لگائی نہیں جا سکتی کہ کوئی مجھ سے محبت نہ کرو۔ میں کیا کر سکتی تھی ۔ پھر یہ کہ محبت وحبت سب بکواس ہے ۔ اس کا آغاز شادی کے بعد ہونا چاہئے۔ یہ کس احمق نے کہا ہے کہ عشق ضرور فرماﺅ چاہے ناکام ہی ہونا پڑے۔
جب بھی وہ سامنے نظر آیا ، میں چڑ گئی کہ لو!پھر نازل ہوگئے۔
”آپ سے میں نے کچھ کہا تھا۔“
”کیا کہا، مجھے یاد نہیں“ میں نے ناگواری سے کہا۔
آپ میرے ساتھ باہر نہیں چلیں گی؟ موڈ نہیں، میں نے پیچھا چھڑانا چاہا۔
صرف ایک بار میری بات مان لیں، آخری بار۔
اسی طرح کتاب میں ایک مضمون ”ملال“ کے عنوان سے ہے ۔ اس کی ابتدا ہی منظر کشی سے ہوئی ۔ انہوں نے گو ہوٹل کا منظر بیان کیا ہے مگر اس کے ساتھ انہوں نے ازدواجی حیات کے ابتدائی لمحات کو بھی سادہ الفاظ میں انتہائی پر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔ ایسے لمحات ایک سادہ اورعام آدمی کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرورآتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری جب یہ مضمون پڑھتا ہے تو وہ خود کو اسی منظر کا حصہ سمجھتے ہوئے کسی نے کسی کردار میں خود کو ڈھلاہوا محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ”ملال“ سے اقتباس دیکھئے:
”ہوٹل کے سجے سجائے خوصبورت ڈائننگ ہال کے ، موسیقی کی خوشگوار لہروں اور سنہری روشنیوں سے بھرے پر رونق ماحول میں شیراز کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سارہ نے اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھا۔ ابھی ان کی شادی کو کچھ ہی روز گزرے تھے، پاکستان کی روایات کے مطابق ان کا رشتہ ان کے والدین نے طے کیا تھا۔ دو مختلف اور اجنبی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے جب ا یک دوسرے کے جیون ساتھ بنے تو سارہ کو اندازہ ہوا کہ ہر معاملے میں ان دونوں کی پسند، نا پسند مشترک تھی۔ یہاں تک کہ جب بیرا مینیو کارڈ لے کر آیا تو شیراز نے سارہ سے کہا ”تم اپنی پسند کا آرڈر دو“۔
یہ انتخاب آپ کریں، کیا پتا آپ کو میرے آرڈر والی چیزیں پسند نہ ہوں۔
چلو دیکھ لیتے ہیں، شیراز نے مسکرا کر کہا، سارہ نے آرڈر دے دیا اور جب کھانا آیا تو شیراز مسرور ہو اٹھے، یہ سب چیزیں مجھے پسند ہیں، تمہیں کیسے پتا چلا؟
واقعی! سارہ مسکرائی ، پھر تو ہماری پسند ایک جیسی ہے۔ اس کے روگ و پے میں گہرا اطمینان سما گیا۔
محترمہ عفت گل اعزازپردیس میں رہ نے والوں کے دکھوں، مجبوریوں اور ناچاریوں کا ادراک رکھتی ہیں کیونکہ ان کے اپنے بھی پردیس میں یا تو موجود ہیں یا مقیم رہ چکے ہیں۔ اس حوالے سے وہ یوں رقمطراز ہیں:
ترس آتا ہے مجھے ان لوگوں پر جو باہر چلے جاتے ہیں۔ انہیں ملتا ہی کیا ہے؟ گھر ان کا بکھرا ہوا، اپنوں سے دوری کا عذاب، نہ کسی کے سکھ میں شریک نہ دکھ میں شامل۔ پیچھے کوئی مر جائے تو اس کے جنازے کو کاندھا تک نہیں دے سکتے۔ صرف روپے پیسے کی خاطر یہ سہنا میرے نزدیک سراسر گھاٹے کا سودا ہے ۔ مجھے تو سیدھی سادھی زندگی پسند ہے۔ بس عزت سے گزارا ہو جائے۔ زندگی کی ضرورتیں بخیر و خوبی پوری ہوجائیں، یہیں اپنے لوگوں کے ساتھ رہیں مل جل کے، مجھے اس سے زیادہ کی ہوس نہیں، شیراز نے سادگی سے کہا۔
سارہ کو اس کے جواب سے مایوسی ہوئی۔
”چھوٹی سی بچی کا بڑا سا دکھ“ محترمہ عفت گل کی کتاب ”ابھی امید باقی ہے“ میں موجود ہے ۔اس میں انہوں نے قرة العین عرف ”عینی “نامی بچی کے کھلونوں اور اس کی ”معصوم اشیاء“ کا تذکرہ کس طرح کیا ہے ، ذرا غور فرمائیے:
وہ ایک چھوٹی سی بچی تھی اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی لاڈلی۔ اسے سب دل و جان سے چاہتے تھے۔ ڈھیروں کپڑے تھے اس کے پاس، ہر رنگ کے اور ہر ڈیزائن کے۔ ریڈی میڈ فراکوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، گھیر دار فراکوں پر طرح طرح کی جھالریں تھیں ان پر پھولدار بیلیں اور بطخ اور تتلیاں کاڑھی گئی تھیں۔ بالوں کی سجاوٹ کے لئے بہت سے خوبصورت ہیئر بینڈ، کلپ اور ربن تھے۔ بیسیوں طرح کے جوتے اور چپل تھے۔ کھلونوں کا انبار تھا جس میں چھوٹی بڑی ہرطرح کی گڑیاں تھیں۔ چھوٹے چھوٹے برتن تھے، پلیٹ پیالیاں گلاس،پتیلی اور چمچے، کف گیر سبھی کچھ تھے۔ اس کے لئے چھوٹا سا جھولا تھا۔ باہر سیر کرنے کے لئے بچہ گاڑی بھی تھی اور جب اس کا جی چاہتا، وہ تین پہیوں والی سائیکل دوڑاتی پھرتی، اس ننھی سی بچی کا نام بڑے بحث و مباحثے بلکہ مذاکروں کے بعد قرة العین رکھا گیا۔ اس کے لئے ناموں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ آسیہ کو اپنی بیٹی جان سے زیادہ پیاری تھی۔
اسی مضمون میں بیٹی عینی سے ماں آسیہ کی محبت ، ممتا کی چاہت کس انداز میں بیان کی گئی ہے ، خود ہی پڑھئے:
عینی میں یہیں ہوں، آپ کے پاس ہوں، آسیہ نرمی سے سمجھاتی تووہ سنبھل جاتی۔ در اصل اسے یہ خوف ہر وقت گھیرے رہتا تھا کہ ماما اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے ۔ ایک دن عینی کی طبیعت خراب تھی، آسیہ اور شعیب اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ساری رات اسے تیز بخار رہا۔ آسیہ بار بار اس کے ماتھے کو چھوتی اور اس کی گرمی سے مضطرب ہو جاتی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ عینی کا بخار اسے ہو جائے اور بچی ٹھیک ہوجائے۔ رات میں وہ کئی بار اٹھ کر اس کا بخار دیکھتی رہی۔ وہ بمشکل کچھ دیر سو سکی۔ صبح ہو گئی، شعیب سویرے ہی دفتر چلے گئے۔ دفتر جاناضروری تھا۔ کئی سارے ایسے کام اس کے ذمہ تھے کہ اس کی غیر موجودگی سے بڑا حرج ہو جاتا۔ وہ سخت پریشان تھی کہ کیا کرے۔ بیمار عینی کو چھوڑ کر جانے کا خیال بھی تکلیف دہ تھا۔وہ بستر سے اٹھی، منہ ہاتھ دھوتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو بہت مضطرب پایا۔
محترمہ پروفیسر عفت گل اعزازکی تحریر ”ابھی امید باقی ہے “پر صرف تبصرہ پڑھنا ہی کافی نہیں، اس کی راست خواندگی انتہائی ضروری ہے تاکہ قاری کو یہ اس امر کا یقین واثق ہو جائے کہ راقم نے اس تحریر میں جو کہا، سچ کہا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہا۔
پروفیسر عفت گل کی کئی کتابوں میں سے ایک اور کتاب مضامینِ گل بھی ہے جس پر تبصرہ آئندہ کیاجائے گا۔