Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ہر پہیلی میں اشارے نہیں مانگا کرتے“

ریاض میں پاکستان رائٹرز کلب اور لیڈیز چیپٹر کے زیر اہتمام مشاعرہ
 
جاوید اقبال ۔ ریاض
کرہ ارض پر لسانی اور فکری ثقافت کو منور اور معطر رکھنے والی تقریباً 5 ہزار زبانوں کی کہکشاں میں اردو ایک درخشاں ستارے کی طرح اظہار بیان کا ایک دلکش وسیلہ بن چکی ہے۔ اپنی پیدائش سے ہی یہ انسانی خیالات و احساسات کی عکاس بنتی رہی ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ اس کے عشاق میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ درباروں سے نکلی تو گلی کوچے میں زباں زدعام ہوئی۔ آداب شہنشاہی کا اظہار یہ بنتی تو کبھی واردات قلب کو لوح و قلم کے حوالے کرتی اور اسے دل نشیں پیرائے دیتی۔ میر نے ہجر و اشک ردیف کے حوالے کئے تو غالب فطرت کا مصور ٹھہرا۔ ان کا دور تو اطاعت شاہ و دربار کا تھا لیکن 20 ویں صدی کے آغاز سے اردو کی نئی صورتگری ہوئی۔ غم جاناں یکدم غم دوراں کا روپ دھار گیا اور " اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے" کہنے والا اپنے شعر کو نیا بیان دے کر کہنے پر مجبور ہوگیا:
 " جب کہیں بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت 
شاہراہوں پر غریبوں کالہو بہتا ہے" 
لیکن یہ ایک کی صدا نہ تھی۔کئی تھے جو زبان کو نیا تیور دے کر اسے نیا لہجہ دے رہے تھے۔ کسی نے کہا :
”مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
 بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی©"
تو کسی کا قلم یوں چلا:" کھیت وڈیروں سے لے لو.....ملیں لٹیروں سے لے لو.....رہے نہ کوئی عالی جاہ!"
تو یہ غم دوراں تھا اور پھر ایک نیا خیال ، نیا مضمون اٹھا " اندر کاسفر " تباہ کن خارجی عناصر کے روح کو دیئے گئے کچوکے مضمون بنے۔ روح کے زخم نیا اظہار یہ پانے لگے:
 " نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
 شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے" 
نہ کسی تاجدارِ اودھ کے روبرو کورنش ، نہ کسی کی ناداری کا مرثیہ ۔۔۔ کیا بھی تو اپنی روح کی تاریک تنہائیوں کا موازنہ شجر پر لرزتے ناتواں پتے سے کر ڈالا۔ 
لیکن ان سب سے دور، سب سے ہٹ کر کچھ نئی آوازیں ، نئے اسلوب، نئے مضمون کے ساتھ اپنا اظہار کررہی ہیں۔ خلیج عرب میںلکھا گیا شعر اپنے اندر غریب الوطنی کی کسک لئے ہوئے ہے ۔ وطن سے دور رہنے والی ان بادیہ نشین آوازوں نے انتہائی دلپذیر مضامین باندھے ہیں اور قاری کو اپنے وجود کا احساس دلایا ہے ۔
اسے بھی پڑھئے:”کچھ تو ہمسائے کے گھر میں بھی اجالا جائے
ریاض میں قائم پاکستان رائٹرز کلب بڑی باقاعدگی سے شعری محافل کا اہتمام کرتی ہے ۔ قابل ستائش بات یہ ہے کہ اس کے مشاعروں میں سعودی عرب کے علاوہ دیگر خلیجی ممالک سے بھی اہل سخن مدعو ہوتے ہیں اور قابل ستائش بات یہ بھی ہے کہ سفارتخانہ ہمیشہ ایسی دلنواز سرگرمیوں کی میزبانی کے لئے مستعد رہتا ہے ۔ اس محفل شعر کا انعقاد بھی سفارتخانے کے چانسری ہال میں ہوا ۔ پاکستان کے یوم دفاع اور مملکت کے قومی دن کی مناسبت سے اس کا اہتمام کیاگیا تھا۔ مہمان خصوصی سفارتخانے کے قونصلر ڈاکٹر بلال احمد تھے جبکہ بحرین سے مدعو کئے گئے اقبال طارق، الخبر سے قدسیہ ندیم لالی اور ریاض سے شوکت جمال مہمانان اعزازی تھے۔ صدارت منطقہ شرقیہ سے مدعو مہمان سعید اشعر نے کی۔ کلب کے جنرل سیکریٹری یوسف علی یوسف نے ناظم اور لیڈیز چیپٹر کی سونیا کاشف نے معاون ناظمہ کے فرائض ادا کئے۔ ناظم نے مختصر اً مشاعرے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ یوم دفاع پاکستان اور مملکت کے قومی دن کی مناسبت سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ مشاعرے میں خلیجی ریاستوں کے شعراءاور شاعرات کو بھی مدعو کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اردو شاعری کو درباروں سے نکال کر اسے نیا لہجہ اور اسلوب دے کر عوام الناس تک پہنچا دیا گیا ہے اور اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ مملکت میں مقیم اور پڑوسی ممالک سے آئے شعراءاور شاعرات معاشرے کو دلچسپ تنوع فراہم کریں گے۔ سب سے پہلے ایمن ظہیر اپنا کلام سنانے آئے۔ انگریزی میں پختہ نویس ہونے کے باوجود انہوں نے قابل ستائش اشعار سنائے اور داد حاصل کی:
”خود کو خود سے ہی ملانے بیٹھا ہوں میں
آج گھنے پیڑوں کے سرہانے بیٹھا ہوں میں
غور سے میں نے تجھ کو جب دیکھا جانا ں
 آنکھوں میںلئے خواب سہانے بیٹھا ہوں میں“
کلب کی لیڈیز چیپٹر کی ہی فرح نادیہ نے نظم پیش کی جو بہت پسند کی گئی:
میں ایک حسین گرداب میں رہتی ہوں
خوشبو اس کی یادوں کی اور میں خوشبو میں رہتی ہوں
شمائلہ ملک رائٹرز کلب کی لیڈیز چیپٹر کی کنوینر ہیں۔ ان کے کلام میں پختگی تھی۔ ہر ایک نے داد دی :
اجالا زیست کا ہر ایک تیرے نام ہو جائے
نظر کا ہر حوالہ یوں ترا پیغام ہوجائے
چمکتا تھا اکیلا آنکھ کے گوشے میں اک آنسو
اسی خواہش میں ٹپکا تھا کہ کچھ آرام ہوجائے
ساجدہ چوہدری ریاض کے ادبی حلقوں میں ایک محترم اور جانی پہچانی آواز ہیں۔ ان کے اشعار حرمان لیکن امید کے عکاس تھے۔ سامعین نے بہت پسند کئے:
قرار دل کو مرے آئے گا کبھی نہ کبھی
جو کھو چکا ہے اسے پائے گا کبھی نہ کبھی
کھلا دریچہ ہے اور شب سیاہ بھی ہے ابھی
یہیں سے چاند نظر آئے گا کبھی نے کبھی
منصور چوہدری رائٹرز کلب میں نئی آواز ہیں تاہم ان کا اسلوب واضح کرتا ہے کہ شعر کو سمجھتے ہیں اور مضمون باندھنا جانتے ہیں، ملاحظہ ہو:
اپنی تقدیر میں فنا نہ رہی
سانس لینے کو بھی ہوا نہ رہی
اب یہاں تیرا ظلم ختم ہوا
جب یہاں خلقت خدا نہ رہی
پیر اسد کمال کا مضمون روایتی تھا لیکن الفاظ کا چنا¶ قابل تعریف تھا۔ سامعین نے اسے بے حد سراہا:
دل کو آباد کیوں نہیں کرتے
تم اسے یاد کیوں نہیں کرتے
ایک عالم ہے گوش بر آواز
آپ ارشاد کیوں نہیں کرتے
زبیر بھٹی فکاہیہ لکھتے ہیں۔ زندگی کے ناخوشگوار حقائق کو بھی ا یسے پیش کرتے ہیں کہ سامع کے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ ان کے اشعار پر سب محظوظ ہوئے:
”ہم سیدھے سادے لوگ زمانے کے کام آئے
جوکر بنے اور ہنسنے ہنسانے کے کام آئے
اپنی کالی کلوٹی بیوی کو کبھی مت چھوڑنا
ممکن ہے کہ دشمن کو ڈرانے کے کام آئے“
شہناز اختر قریشی ریاض کے ادبی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ ان کی شاعری میں وطن سے محبت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ اصلاح کردار بھی اکثر اشعار کا موضوع ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
”دنیائے اسلام سدا رہے آباد
پاک، سعودی دوستی زندہ باد“
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
ہر مسلماں پر ہے لازم پاسبانی کا سفر
مشاعرے کے ناظم یوسف علی یوسف ،ریاض کی منجھی ہوئی آوازوں میں سے ہیں۔ ڈکشن اور بیا ن دلکش ہے اور سامعین بے اختیار داد دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
گریہ¿ نیم شبِ غم میں پکا ری گئی ہو
کچھ سبب ہے کہ جو دھرتی پہ اتاری گئی ہو
 دست قدرت نے کئی بار سنوارا ہے تمہیں
اور آخر میں پھر اک بار سنواری گئی ہو
شاہد خیالوی کا اسلوب جدا ہے۔ تلخی¿ دوراں کو بڑی نرمی اور آہستگی سے بیان کرتے ہیں۔ انہیں بہت داد ملی:
یہ کلیاں توڑ لیتے ہیں جواں ہونے سے پہلے ہی 
یہ کلیوں سے جوانی کی ادا بھی چھین لیتے ہیں
صدف فریدی کا نام تب تب لیاجائے گا جب جب ریاض کی ادبی محفلوں کا ذکر ہوگا۔ پختہ فکر اور اسلوب نے ان کے کلا م کو حسن بخشا ہے۔ روایتی طرز کو جدید رنگ دے کر دلچسپ شعر کہتے ہیں۔ انہیں بے تحاشا داد ملی۔ ملاحظہ ہو:
آگ کو ہنستے ہوئے پانی کو جلتے دیکھا
میں نے جب خواب کو تعبیر میں ڈھلتے دیکھا
پھر یہ معلوم ہوا گردش دوراں کیا ہے
میں نے جب آپ کی نظروں کو بدلتے دیکھا
حلقہ فکرو فن کے نائب صدر صابر قشنگ، ریاض کی ادبی فضا میں ایک خوبصورت اضافہ ہیں۔ کلام میں اچھوتا پن اور پختگی سامع کو مبہوت کرتی ہے۔ اپنا کلام سناکر خاصی داد سمیٹ لے گئے:
خاک زادوں سے حوالے نہیں مانگا کرتے
ہر پہیلی میں اشارے نہیں مانگا کرتے
وقار نسیم وامق جواں سال شاعر ہیں اور حلقہ فکر و فن کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ریاض کی شعری نشستوں کی رونق ہیں۔ مسلسل تحریر نے ان کے کلام کی اثر آفرینی میں اضافہ کردیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
دوستی کا مقام تیرے نام
آج میرا کلام تیرے نام
تجھ سے نسبت ہے اس لئے میرا
پیار کا ہر پیام تیرے نام
محسن رضا ثمر کے کلام میں جدت بھی ہے اور شدت احساس بھی۔ پڑھنے کا انداز بھی دلکش ہے۔ معنویت کے لحاظ سے بھرپور اور م¶ثر شعر کہتے ہیں۔ ملاحظہ کریں:
کب تیرا غم لب اظہار پہ رکھا ہوا ہے
وہ تو دامن کے ہر اک تار پہ رکھا ہوا ہے
حبس ایسا ہے کہ ترغیب ہوا کو دے لیں
اک دیا تھا وہی دیوار پہ رکھا ہوا ہے
الخبر سے مشاعرے میں شرکت کیلئے آئے مسعود جمال کیلئے محفل نئی تھی لیکن ان کے شعر نے ہر دل میں اپنا مقام پیدا کرلیا۔ داد بھی بے تحاشہ ملی۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
رخصت کا وقت یاد کئے جارہا ہو ں میں
بے کیف دل ہے اور جئے جار ہا ہوں میں
تو نے مجھے ستانے کو کیا کچھ نہیں کیا
تعریف تیری پھر بھی کئے جارہا ہوں میں
ریاض کے ادبی حلقوں میں ایک اور جانا پہچانا نام سلیم کاوش کا ہے۔ زندگی کی تلخ و شیریں جہتوں سے بخوبی آشنا ہیں اور مہارت سے انہیں شعر میں بیان کرتے ہیں:
 بنتے بنتے رک جاتے ہیں کام کئی
ٹل جاتے ہیں خطرے اور انجام کئی
کرداروں پر جب جب باتیں ہوتی ہیں
یاد آتے ہیں بھولے بسرے نام کئی
حشام سید کا نام ریاض کی ہر محفل شعر میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں اور اشعار میں اصلاح کاپہلو ان کے کلام کو تاثیر عطا کرتا ہے۔ ان کے لفظ داد کے مستحق تھے:
 ”یہ ہم سے پوچھنا کیسا کہ محبت ہم کو کس سے ہے 
کوئی پندرہ صدی سے ہی محبت ملک عرب سے ہے
سدا قائم رہے رشتہ محبت کا ہی کہ اس پر
خدا ثابت قدم رکھے اسی میں ہی سلامت ہے“
منطقہ شرقیہ سے مدعو غزالہ کامرانی نے زندگی کی حقیقت کو دلنشیں انداز میں پیش کیا اور داد کی مستحق ٹھہریں۔ ایک قطعہ پیش خدمت ہے:
کوندی بجلی جو آسمانوں پر
ہوئی برسات آشیانوں پر
کوئی انمول بکنے آیا ہے
اسلئے بھیڑ ہے دکانوں پر
شوکت جمال کا نام آتے ہی ذہن و قلب میں پھلجھڑیاں روشن ہوتی ہیں۔ ریاض کی شعر ی محفلوں کا ایک ہر دلعزیز نام ہیں۔ حقائق کو اچھوتے انداز میں پیش کرکے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے ہیں۔ آپ بھی لطف اٹھایئے:
تمہید و اقتباس سے آگے نہیں بڑھے
ہم عرض و التماس سے آگے نہیں بڑھے
بچپن میں دل دیا تھا جنہیں بارہویں میں ہیں
ہم آٹھویں کلاس سے آگے نہیں بڑھے
اعزازی مہمان قدسیہ ندیم لالی منطقہ شرقیہ سے مدعو تھیں۔ ریاض میں جب بھی کسی مشاعرے میں شرکت کرتی ہیں اپنی فکر اور اسلوب سے سامعین کو چونکا دیتی ہیں۔ الفاظ کا انتخاب اور ڈکشن بے اختیار داد وصول کرتا ہے۔ منجھا خیال اور انداز بیاں قابل ستائش ہے۔ ملاحظہ ہو:
ہر چند کہ باتوں میں چھپا دیتے ہیں سب کچھ
آپس کے رویے ہی بتا دیتے ہیں سب کچھ
لکھتے ہیں سند یسے بھی ہوا¶ں پہ ترے نام
کچھ سوچ کے پھر آپ مٹا دیتے ہیں سب کچھ
بحرین سے مدعو اقبال طارق اعزازی مہما ن تھے۔ شاعر ی نیا خیال اور اسلوب پیش کرتی ہے۔ سامعین نے اپنی پسند کا اظہار داد دے کر کیا:
میں ابتداءکی الف کو ہنوز سمجھا نہیں
اور انتہاءنے مرا ہاتھ تھام رکھا ہے
تقریب کے صدر سعید اشعر کے شعر میں گہرائی اور خوبصورت خیال ہے۔ روایتی اسلوب سے ہٹ کر لکھتے ہیں اور سامع کو بے اختیار داد دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
ایک ایک مہربان کے میں ساتھ چلا ہوں
رستے میں ساربان کے میں ساتھ چلا ہوں
سنتے رہے ہیںاہل جنوں داستان دل
سورج کے خاندان کے میں ساتھ چلا ہوں
مشاعرے کے ا ختتام پر مہمان خصوصی ڈاکٹر بلال احمد نے محفل کے انعقاد پر رائٹرز کلب اور اس کے لیڈیز چیپٹر کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کی مساعی کو سراہا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مشاعروں کا انعقاد برصغیر کی ایک قدیم ثقافتی روایت ہے اور یہ کہ اس ادبی فعالیت نے اردو زبان کی اٹھان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اپنے بیرون ملک کے 18 سالہ عرصہ¿ کار میں انہوں نے پاکستانی کمیونٹی سے روابط رکھے تھے تاہم مملکت میں مقیم ان کے ہموطن ثقافتی سرگرمیوں میں دیگر ممالک میں رہائش پذیر اپنے ہموطنوں سے زیادہ ایسی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بلال احمد نے حاضرین پر واضح کیا کہ ثقافتی تقریبات کے انعقاد میں سفارتخانہ ہمیشہ ان سے تعاون کرے گا۔
کلب کے صدر ڈاکٹر فیاض ملک نے مہمان خصوصی، شعرائ، شاعرات اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی تنظیم ایسی تقریبات کا انعقاد کرکے کمیونٹی کو اردو ادب کی طرف راغب کرتی رہے گی۔ انہوں نے لیڈیز چیپٹر کی ان خواتین کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا جنہوں نے مشاعرے کے آغاز سے قبل اسٹیج پر ایک” فکاہیہ خاکہ“ پیش کیا تھا۔ مشاعرے کے اختتام پر ڈاکٹر بلال احمد، سید اشعر اور مہمانان اعزازی کو شیلڈ ز پیش کی گئیں جبکہ دیگر شرکاءمیں اسنا د تقسیم کی گئیں۔ 
 

شیئر: