بی جے پی کاریزرویشن قانون،انتخابی حربہ
اگر اترپردیش میںدو بڑی علاقائی جماعتوں سماج وادی پارٹی(ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)اور بہار میں کانگریس اور کئی علاقائی پارٹیوں نے عام انتخابات سے پہلے ہی سیٹوں کی تقسیم کا معاہدہ کر کے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر خطرے کے بادل منڈلا دیے تو بی جے پی نے اعلیٰ طبقات کے اقتصادی طور پرکمزور افراد کیلئے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں10فیصد ریزرویشن کے بل کو قانون کی شکل دے کر زبردست سیاسی دھماکہ کردیاہے۔ اگر اس کی یہ چال کامیاب ہو گئی تو اترپردیش اور بہار میں حزب اختلاف کے اتحاد کے اعلان سے اس کے اوپر جو خطرے کے بادل منڈلانے لگے تھے وہ کافی حد تک چھٹ جائیں گے کیونکہ گذشتہ دنوں ایس سی ایس ٹی قانون میں ترمیم کے باعث اعلیٰ ذات کے لوگوں میں جو غم و غصہ تھا اور جس طرح بی جے پی کی اس پر گرفت کمزور پڑ گئی تھی وہ اس ریزرویشن قانون سے پھر مستحکم ہو جائے گی۔اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس قانون سے بی جے پی کو فائدہ ملے گا یا اس دورکے ذہین اور سمجھدار ووٹرز جن میں اکثریت نوجوان طبقہ کی ہے متاثر ہو پائیں گے یا نہیں یا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس نئے ریزرویشن قانون سے وہ کمزور طبقہ بھی جو مایا وتی کو دھوکا دے کر بی جے پی کے ساتھ ہو گیاتھا اس سے دور ہو کر پھر مایا وتی کی حمایت پر اٹھ کھڑا ہوجائے۔ عام طور پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ10فیصد ریزرویشن قانون انتخابی حربہ کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کا مقصد بہار میں عظیم اتحاد کے بعد اترپردیش میںبھی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج میں انتخابی سمجھوتے ،اترپردیش میں گاندھی خاندان کی موروثی سیٹوں امیٹھی اور رائے بریلی کی سیٹوں پر ایس پی اور بی ایس پی کا کانگریس کے خلاف اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہ کرنے اور مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کے خلاف کانگریس کی خاموش حمایت کرنے جیسے موضوعات سے عوام کی توجہ بھٹکانا اور انتخابات کے دوران بی جے پی (مودی) کا اسے ملک گیر پیمانے پر پارٹی کی انتخابی مہم میں اصل موضوع بنانا ہے۔ اسی موضوع سے گذشتہ 5 سال کے دوران اپنی حکومت کی کامیابیوں کا زور شور سے تشہیر کرنا ہے۔ دراصل ایس پی۔ بی ایس پی اتحا د ، بہار میں کانگریس ، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کشواہا اور جیتن رام مانجھی کی پارٹیوں کا متحد ہو کر بی جے پی ،جے ڈی یو اتحاد کے خلاف لڑنے کے فیصلے سے ہندی بولنے والی پٹی میں اس کی ساکھ داؤ پر لگتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہندی بولنے والی ان ریاستوں میں سے کم از کم 3 ریاستیں ایسی ہیں جو ہمیشہ کی طرح 2019کے انتخابات میں بھی گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہیں۔ اب سے چند ماہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیںسکتا تھا کہ شمالی ہند اور جنوبی ہند میں بالترتیب ایک دوسرے کی ازلی دشمن ایس پی ۔ بی ایس پی اور کانگریس،تیلگو دیشم میں کبھی اتحاد ہو سکے گا یاکبھی کوئی تمل رہنما کانگریس صدر کو ملک کا وزیر اعظم بنانے کی وکالت کرے گا ۔ مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو بہار، آندھرا پردیش کی طرح اگر تمل ناڈو میں بھی ڈی ایم کے کانگریس میں معاہدہ ہو گیا تو ایسی صورت میں یہ تینوں ریاستیں حزب اختلاف کے لیے بونس بن جائیں گی کیونکہ پھوپھی بھتیجے کا اتحاد اترپردیش میں بی جے پی کا مکمل صفایا نہ سہی لیکن کم از کم 50 تا55سیٹوں سے ضرور محروم کر دے گا۔ رہی سہی کسر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں’’ پھوپھی، بھتیجہ‘‘ کی پارٹیاں کانگریس کے ساتھ اتحاد نہ ہوسکنے کے باوجود واقعی سخت ہیں۔ اکھلیش یادو کے خلاف مرکز کی سی بی آئی تحقیقات کی دھمکی اور مایا وتی کو اپنے خلاف داخل دفتر کیے گئے عدالتی کیسز کھلنے کا خدشہ کسی بھی قیمت پر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے کانگریس کا بہر صورت ساتھ دینا ان پھوپھی بھتیجے کی مجبوری بن گئی ہے۔جہاں تک اترپردیش میں ایس پی ۔بی ایس پی اتحاد سے مودی حکومت کو نقصان پہنچنے کا سوال ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس سے بی جے پی کے سرپر یہ اتحاد ایک بڑا خطرہ بن کر منڈلا رہا ہے۔کیونکہ 1993میں جب ان دونوں نے متحد ہو کر چناؤ لڑا تھا تو اسی وقت سے ان دونوں کا ووٹ بینک مضبوط ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن کئی نشیب و فراز سے گزرتے اور گذشتہ 25سال سے قطع تعلق کی زندگی بسر کرنے کے بعد جب ان دونوں نے 26سال پرانی دشمنی بھلا کر ضمنی انتخابات لڑے اور کانگریس کے غرور کو نظر انداز کر کے اس کے تئیں اپنے موقف میں نرمی کی تو مودی حکومت کے آخری سال میں بی جے پی سے پارلیمانی و اسمبلی سیٹیں اور ریاستیں چھین کر 2019کے انتخابی نتائج کی ایسی ممکنہ جھلک دکھائی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت میں بدل سکتی ہے۔ اترپردیش میں ایسی صورت حال سامنے آتی جا رہی ہے جس سے سیاسی پنڈتوں نے تو یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کے کئی قد آور لیڈربشمول مودی حکومت کے 7 وزیر لوک سبھا سیٹ سے محروم ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ترپردیش میں’’یوگی لاؤ،دیش بچاؤ‘‘ اور ’’جملے بازی کا نام مودی۔۔ ہندو تو کا برانڈ یوگی ‘‘نعرے کے ساتھ جا بجا بڑے بڑے پوسٹروں کے آویزاںہونے اور اسی پوسٹر کے توسط سے 10فروری کو دھرم سنسد منعقد کرنے کے اعلان سے بھی مودی اور امیت شاہ کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔غرضیکہ آثار و قرائن یہ ظاہر کررہے ہیں کہ2019بی جے پی کے لیے 2014 کی طرح حلوہ ثابت نہیں ہوگا۔