Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی معاشرے میں تبدیلیاں

فارس بن حزام ۔ الحیاة
حد سے زیادہ پرامید لوگوں نے بھی کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ سعودی عرب میں سماجی تبدیلی اتنی تیز رفتاری سے آئیگی۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اندر سے تیاری کیلئے پوری طرح تیار تھا۔ ضرورت جرا¿ت مندانہ فیصلے کی تھی۔ فیصلہ ساز رہنما نے معاشرے کو خوب اچھے طریقے سے پڑھا اور اس کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیا۔ فیصلہ ساز رہنما کو اس بات کا ادراک اچھی طرح سے ہوگیا کہ معاشرہ آگے کی جانب بڑھنے کیلئے تیار ہے۔ غالباً 10برس قبل سعودی عرب تیز رفتار تبدیلی قبول کرنے کیلئے اتنا زیادہ تیار نہیں ہوا تھا۔ 
قدرے پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ سعودی معاشرہ نصف صدی سے اوپر نیچے ہوتا رہا ہے۔ علم اور روشنی نے پسپائی اختیار کی۔ 7ویں عشرے کے دوران تاریکی اور درویشیت نے ا پنے پیر پھیلائے اور آٹھویں عشرے کے شروع میں معاشرے کو پوری طرح سے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اپنا سیاسی غلبہ تھوپ دیا۔ 1991ءکے بعد سیٹلائٹ چینلز کے سر ابھارنے پر تبدیلی کی پہلی علامت افق پر نظر آئی۔ اسکاسہرا ایم بی سی چینل کے سرجاتا ہے۔ آگے چل کر انٹرنیٹ آیا ۔ 1997ءکے بعد یہ جگہ جگہ پھیل گیا۔ نواں عشرہ معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا نقطہ آغاز بنا۔ہزارہ پورا ہونے پر سوشل میڈیا ابھر کر سامنے آیا۔سعودی طلباءو طالبات کو کثیر تعداد میں بیرونی دنیا بھیجنے کا مشن شروع ہوا۔سعودی عوام نے اجتماعی شکل میں ٹی وی کی مدد سے بیرونی دنیا کو دیکھا بھالا، خلیجی ممالک ، عالم عرب اوردنیا بھر کے ممالک کا مشاہدہ کیا۔ انفرادی سطح پر انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا جہاں پر نظر ڈالی۔ سوشل میڈیا متحرک ہوا تو براہ راست اور اعلانیہ تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوا۔ بیرون مملکت علوم و معارف سیکھنے کیلئے جانے والی نئی نسل تیار ہوئی۔ ان سارے محرکات نے مل جل کر معاشرے میں بڑے پیمانے پر مختلف طبقے تخلیق کرد یئے۔ ایسے لوگ تیار ہوئے جو دور تک دیکھنے لگے تھے۔
انتہا پسندعناصر نے سیٹلائٹ چینلز ، انٹرنیٹ اپیلی کیشنز اور تعلیمی وفود سمیت تبدیلی کے چاروں محرکات کے خلاف جم کر معرکے لڑے۔ فتوے دیکھ کر انہیں حرام قرار دیا۔ اپنے پیرو کاروں کو مذکورہ چاروں عناصرسے دست بدست جنگ کے ہدایت نامے جاری کئے۔ عوام نے ڈر کے مارے ڈشیں چھپا لیں۔ انتہا پسندوں نے ویب سائٹس پر یلغار شروع کردی۔ لوگوں نے فرضی ناموں سے ویب سائٹس قائم کرلیں۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون مملکت جانے والوں کا تعاقب شروع کیا گیا۔ ان کے ساتھ بھی رسہ کشی ہوئی۔ انتہا پسندو ںکو یقین تھاکہ مذکورہ چاروں عناصر میں سے ہر ایک سعودی معاشرے کو انکی دسترس سے آزاد کرادیگا۔جب انہیں یہ احساس ہوگیا کہ ان سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو انہوں نے مذکورہ عناصر کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ کل تک جو چیزیں حرام تھیں وہ حلال کرلی گئیں۔ بعض لوگوںنے تو سیٹلائٹ چینلز کے حلال ہونے کے ہی فتوے نہیں دیئے بلکہ انہیں بنیادی فرائض کا حصہ بنادیا۔ انہوں نے ویب سائٹس بھی کھول دیں ۔ ایپلی کیشنز میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے لگے۔ بچوں کو تعلیم کیلئے باہر بھیجنے لگے۔ یہ تبدیلیاں آسان نہیں تھیں۔ ان کے حوالے سے سیاسی فیصلہ بھی سہل نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: