افغانستان میں قیام امن کی شروعات
کراچی ( صلاح الدین حیدر) افغانستان میں قیام امن کےلئے پاکستان کی برسوں کی جدوجہد لگتا ہے بالاخر رنگ لے ہی آئی۔ گو کہ فی الوقت کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اعتراف کہ اگر وہ واقعی اپنے ملک میں کچھ اثر و رسوخ حاصل کر سکیں تو صدق دل سے پاکستان کے مشکور و ممنون ہوں گے۔یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ان کا بیان پاکستان کی فتح ہے۔ہمارے ارادوں کا ناقابل تردید ثبوت بھی اس کے کئی معنی نکلے یا نکالے جاسکتے ہیں۔ پہلے تو طالبان جو سرحد پار سے آکر پاکستان کے قبائلی یا شہروں میں دھماکے کرتے تھے۔ دہشت گردی کے واقعات سے ملکی فضا کی زہرآلود کر رکھا تھا لیکن اب خوشخبری کی علامات نمایاں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ ثمر پاکستان کو بڑی جدوجہد کے بعد ملا ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ سے ہی ہر قسم کے الزامات سے نوازا جاتا رہا تھا۔ امریکہ نے ڈو مور کی رٹ لگا رکھی تھی، خود طالبان جو کہ خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمان کے مدارس میں طالب علم تھے، وہاں سے نکل کر پہلے سابق سوویت یونین اور بعد میں امریکہ کے خلاف اپنے ملک کی آزادی کیلئے قربانیوں پر مجبور ہوئے پھر جب ان پر ظلم و ستم توڑا گیا تو پناہ کیلئے سرحد پار کر کے پاکستان آگئے۔ ایک اندازے کے مطابق 1979ءسے لے کر پچھلے دو تین برسوں تک تقریباً 30 لاکھ افغان اور طالبان پاکستان میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری، دہشت گردی پر آمادہ۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کا امن تباہ و برباد ہوگیا۔ لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو خطرے میں پڑ گئی لیکن جب بھی افغانستان میں امن کی بات کی وہ حقارت سے رد کردی گئی۔ زمانہ ایک سا نہیں رہتا۔ شہبات کبھی مستقل نہیں رہتے، تغیر تو ایک دن آنا ہی تھا جو بالاخر آگیا۔ پاکستانیوں کیلئے طالبان کا تازہ ترین بیان خوشخبری سے کم نہیں۔ ان تمام تبدیلیوں کے کئی پہلو ہیں۔ ایک طرف تو ذبیح اللہ کا یہ کہنا کہ اگر طالبان واقعی عزت و احترام سے اپنے ملک میں اقتدار میں شریک ہوئے تو پاکستان کیلئے نیک تمناوں کے سوا ان کے پاس کچھ اور نہیں ہوگا۔ ترجمان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ طالبان کی طرفداری کی ہے۔ انہیں اپنے ملک میں پناہ دی۔انکی تعداد 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اسلام آباد کی حکومت نے ہمیشہ ہی ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، لیکن ہر بار کابل سے یہی جواب ملا کہ کچھ اور صبر کرلیں۔ ابھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ حالات تو بہتری کی جانب جارہے ہیں لیکن مراحل میں مسئلہ حل ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ادارے، ہائی کمیشن اور افغان مہاجروں کا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ امریکہ نے برسوں پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کر کے پریشانی میں مبتلا کئے رکھا، خدا خدا کر کے کہ اب یہ قصہ ختم ہوا ہے۔ امید کی ایک نئی کرن پھوٹی ہے جو اللہ کرے خطے میں امن و سلامتی کی ضامن ہو۔
امریکہ کی طرف سے ڈو مور کے خاتمے کے ساتھ ہی ہندوستان جو افغانستان کی سیاست پر چھایا ہوا تھا اس کی بھی کمر ٹوٹتی نظر آنے لگی ہے۔ اب طالبان کے رویئے میں مثبت تبدیلی آنے کے بعد ہندوستان کا رول بتدریج ختم ہونا شروع ہوجائے گا۔ ذبیح اللہ نے یاد لایا کہ طالبان نے واشنگٹن کو ہمیشہ مذاکرات کی دعوت دی لیکن جواب ہر مرتبہ نفی ہی میں ملا۔ 2013ءمیں دبئی میں مذاکرات ہوئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا لیکن اب کے بار امریکہ نے اپنی افواج افغانستان سے نکالنے کی ٹھان لی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہں نے پاکستان کو ہمیشہ اپنا دوسرا گھر سمجھا ہے اور جیسے ہی طالبان کے مطالبات منظور ہوجائیں گے جس کی قوی امید ہے تو ہم پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات کی خواہش لے کر آگے بڑھیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو تاکہ خطے میں امن و سلامتی کے ایک نئے اور روشن باب کا اضافہ ہوسکے۔