Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا زندگی کی قیمت صرف ہمارے کر تا دھرتاﺅں کی ہے ؟

یہ اپنے لئے تو ہر قسم کی آ سائشوں کا اہتمام کرتے ہیں لیکن عوام کی انہیں پروا ہی نہیں،انکے گر د و پیش میں کیا ہو رہا ہے اس طرف انہو ں نے جھا نکنے کی بھی کو شش نہیں کی
تسنیم امجد ۔ ریاض
کیا زندگی کی قیمت صرف ہمارے کر تا دھرتا ﺅں کی ہے ؟یہ اپنے لئے تو ہر قسم کی آ سائشوں کا اہتمام کرتے ہیں لیکن عوام کی انہیں پروا ہی نہیں۔ان کے گر د و پیش میں کیا ہو رہا ہے اس طرف انہو ں نے جھا نکنے کی بھی کو شش نہیں کی ۔ان فلائی اوورز پر حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔جو میڈیا پر بتائے جا تے ہیں انہیں سب خبر ہو تی ہے لیکن یہ جا نتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے تو مرتے ہی رہتے ہیں۔دھنک کے صفحے پر دیا گیا فلائی اوور کسی موت کے کنویں سے کم نہیں ۔بچوں کے لئے یہ ایک خطرہ ہے ۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ اس کا2 سال کا بچہ اس کی بانہوں سے لڑ ھک کر باہر کی طرف گرتے گر تے میرے پیچھے آنے والے نے اچک کر پکڑ لیا ۔اللہ جانے وہ کو ئی فر شتہ تھا جس نے اس کی جان بچا لی ۔ان پلوں کے فرش بھی اب بہت خستہ ہو چکے ہیں ۔کئی جگہوں سے چھید پڑے ہیں ۔لکڑی کے تختے اب کمزور ہو چکے ہیں۔یہ پل سہولت کے لئے بنتے ہیں اور حادثات سے بچاﺅ کا اہم ذریعہ ہیں ۔یو ں لگتا ہے کہ ان کی افادیت کو جا نتے ہوئے ملک میں انہیں تعمیر تو کر دیا گیا لیکن ان کی دیکھ بھال کیسے کی جاتی ہے ،اس کی پروا نہیں۔ما ضی قریب میں ہی معلوم ہوا کہ ہم فلائی اوورز میں خود کفیل ہو چکے ہیں ۔کراچی نمبر ون پر ہے جبکہ لاہور دوسرے اور ملتان و حیدر آباد با لترتیب تیسرے
اور چو تھے نمبر پر ہیں ۔کراچی کے چار پل 35بلین بجٹ پاس ہونے کے با وجود ابھی تک زیرِ تعمیر ہیںجبکہ مدت تعمیر بھی گزرچکی ہے ۔اس تاخیر کو پو چھنے والا کوئی نہیں ۔مسلم ٹاﺅن لاہور کا پل پا کستان کا سب سے لمبا پل ہے جو 176دنوں میں مکمل کیا گیا ۔
ایک اندازے کے مطابق اس سے2.6 بلین پٹرول بچے گا ۔ماہرین کے مطابق یہ ایک سال میں اپنی قیمت و صول کر لے گا یقیناََ روانی سے ٹریفک چلے تو پٹرول و ڈیزل کی بچت ممکن ہے ۔یہ ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جہاں حکومت چا ہتی ہے وہاں کام دھام طریقے سے چلا لیتی ہے اورجہاں مرضی نہیں ہوتی وہاں حالات کتنے ہی مخدوش کیوں نہ ہو جا ئیں ،پروا کوئی نہیں کرتا ۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہونے کے با وجود با ہمی تفریق کا شکار ہیں ۔لالچ و حرص قوم کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے ۔چھو ٹے چھو ٹے پروگراموں میں رقص و سرور کی محفلیں سجانا سب کو یاد رہتا ہے ۔شادیوں اور دیگر تقریبات میں پیسہ پانی کی طر ح بہایا جاتا ہے ۔بیچارہ غریب منہ دیکھتا رہ جاتا ہے ۔ان کو بچا کھچا کھانا بھی نہایت ا حسان سے دیا جاتا ہے ۔اسی لئے یہ طبقاتی کشمکش ہے ۔سیاسی محاذ آ را ئیا ں اور شہریوں کی جان و مال کی حفا ظت دومتضاد پہلو ہیں اب۔ایسے میں وطن کی فضا مکدر ہو چکی ہے ۔
عوام کی اکثریت ان پڑھ ہے اسی لئے جلد کسی نہ کسی کے ہا تھوں چڑھ کر ا حتجاج پر اتر آ تی ہے جس سے نقصان ہوتے ہیں ۔اس پل کو دیکھ کر یہ سوچ یقیناََ آئے گی کہ یہ ملک با شعور لو گو ں کا نہیں رہا ۔ہم تباہی کے وا قعات سے مانوس اس قدر ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی حادثہ اب کوئی معنی نہیں رکھتا ۔باہر جانے والے جب تک گھر میں قدم نہیں رکھتے ،جان حلق میں ا ٹکی رہتی ہے ۔تصویر ظاہر کر رہی ہے کہ ، حادثہ چند قدموں پرہے اور ہوش و خرد کو سو ں دور ۔ا حساسِ ذمہ داری نجانے کہاں ہے ۔ا صولاًکسی ٹوٹ پھوٹ والی جگہ پر ا حتیاطی تدبیر کا بو رڈ لگا ہونا چا ہئے لیکن اس کے لئے بھی وقت درکار ہے ۔کاش ہمیں یہ شعور آ جائے کہ کسی بھی ملک کے حالات کا جا ئزہ عمومی طور پر سڑ کوں ،پلوں اور صفائی کی صورتحال سے لگا یا جا تا ہے ۔اسی لئے ہم عالمی رائے کو ہموار کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔جس طرح ہم اپنی ثقافت میں دنیا جہاں کی ثقا فتیں شامل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت خود میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔اپنے حقوق کے لئے بھی یکجہتی سے آواز ا ٹھائی جا سکے گی ۔ہمیں تبدیلی کا انتظار ہے جس کےلئے ہم نے بڑھ چڑھ کر اپنی پسند کے حکمرانوں کا انتخاب کیا۔کیا کہیں ان سا ز شی دما غوں کو جو پل پل جو ڑ توڑ کرتے نہیں تھکتے ۔ان کے لئے یہی کہنا بجا ہو گا ۔
چین سے بیٹھنے نہیں دیتے
لڑ رہے ہیں لڑا رہے ہیں وہ
خاک جمہوریت کے چہرے پر
کیوں مسلسل اڑا رہے ہیں وہ
ایک اور حقیقت کا سدِ باب ضروری ہے۔وہ یہ کہ کسی بھی تعمیراتی کو ششوں کے بعد جلد ہی جب ٹوٹ پھوٹ سامنے آ تی ہے تو یہ کہہ کر جان چھڑائی جا تی ہے کہ مٹیریل صحیح نہیں تھا ۔لیکن بعد میں یہ عقدہ کھلتا ہے کہ ٹھیکیداروں اور انجینئروں کی ملی بھگت تھی۔اس کے ساتھ افسرانِ بالا کی شمولیت کا پول بھی کھلا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وطن کو مسا ئلستان بنانے والے ہم خود ہی ہیں ۔منصوبہ بندی کے فقدان نے جینا مشکل کر رکھا ہے ۔ آ ہ !
چمن کو اس لئے ما لی نے خوں سے سینچا تھا 
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو تر سیں
فی ا لحال ایسا لگتا ہے کہ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔علاقائی ،لسانی اور طبقاتی تعصبات نے ہمیں جکڑ رکھا ہے ۔ایک گھٹن کا سا احساس ہے اس کا حل صرف اسی میں ہے کہ برابری کی بنیادوں پر انسا نوں اور شہروں کے ساتھ سلوک کیا جائے ۔انگریزی کا مشہور مقولہ ہے  ”ٹو گیدر وی اسٹینڈ اینڈ پا ر ٹڈ وی فال ،، یعنی اگر ہم متحد ہوں گے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں گے اور اگر ہم الگ الگ ہوئے تو زمین پر ڈھیر ہو جا ئیں گے ۔بلا شبہ ایک متحد قوم ،متحد ملک اور متحد خاندان ہر مشکل پر قا بو پا سکتا ہے ۔انسان معا شرتی حیوان ہے یہ معاشرہ اس کی مجبوری ہے وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا اس لئے اسے اس کے لئے خطرہ نہیں بننا چا ہئے ۔ہم اپنے اپنے گھروں کو تو سجا بنا لیتے ہین لیکن یہ ا حساس نہیں کرتے کہ ہمارے گرد کیا ہے ؟ آئیے مل جل کر اپنے مسائل کا قلع قمع کریں۔ا حساس کا دامن تھا میںاور را ستہ اپنائیں۔ حکومت و حکمران ،قا ئدین و عوام ،ایک ہی درخت کی شا خیں ہیں ۔ان کا سایہ تبھی آ رام دہ و پر سکون و ٹھندا ہو گا ،جب سبھی مل کر انکی آ بیاری کرینگے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: