Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم، ایوب اور زمزم ، 3 قدرتی چشمے

  نویٰ میں وہ چٹان اب ہے جہاں بیٹھ کر آپ نے زمانۂ ابتلاء بسر کیاتھا اور وہ چشمہ بھی ہے جس میں غسل کرکے آپ ؑ نے شفا پائی تھی
 
حکیم ظل الرحمن۔ نئی دہلی
          قرآن کریم کے سورہ ص، آیت41  اور  42میں ارشاد ربانی ہے:
     ’’اور ہمارے بندے ایوب(علیہ السلام)کا بھی ذکر کرجبکہ اُس نے اپنے رب کو پکاراکہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے(تو ہم نے اسے حکم دیا کہ)اپنا پائوں مارو،یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے(اور چشمہ اُبل پڑا)‘‘
     کہا جاتا ہے کہ حضرت ایوب ؑ عرب تھے، عرب میں ظاہر ہوئے تھے، توریت کے باب پیدائش اور باب تواریخ میں عوض کو ارم بن سام بن نوح کا بیٹا بتایاگیا ہے۔ عوض کی سرزمین میں ایوب نامی ایک شخص تھا، وہ شخص کامل اور صادق تھا اور خدا سے ڈرتا تھا اور بدی سے دور رہتا تھا(توریت:باب ایوب)۔
    عوض کی سرزمین:
      ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں جو کچھ فرمایا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایوب! اپنی جگہ سے اٹھو اور زمین پر ٹھوکر مارو، ایوب علیہ السلام نے ارشاد باری تعالیٰ کی تعمیل کی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک چشمہ جاری کردیاجس میں انھوں نے غسل کیا اور جسم کا ظاہری روگ جاتا رہا۔ اس کے بعد انھوں نے پھر ٹھوکرماری اور دوسرا چشمہ ابل پڑا اور انھوں نے اس کا پانی پیا اور اس سے جسم کے باطنی حصہ میں جو مرض کا اثر تھا، وہ بھی ختم ہوگیا۔ اس طرح وہ چنگے ہوکر اللہ کا شکر بجالائے (بحوالہ قصص القرآن، از مولانا حفظ الرحمن علیہ رحمہ)۔
    عوض کے ملک میں ایوب ایک کامل اور راست باز انسان تھے، خدانے انھیں بڑی دولت دے رکھی تھی۔ ایک وقت آیا کہ حضرت ایوب کے تمام جسم پر پھوڑے نکل آئے، پھر انھوں نے خدا کو پکارا تو حکم ملا کہ اپنے پیر زمین میں مارو، انھوں نے حکم کی تعمیل کی تو ایک چشمہ بہہ پڑا، اس سے انھوں نے غسل کیا تو تمام بیماری ختم ہوگئی۔ اس کے بعد انھوں نے دوبارہ پیر مارا تو دوسرا چشمہ برآمد ہوا جس کا پانی انھوں نے پیا تو ان کی تمام تندرستی لوٹ آئی (ترجمان القرآن ،ازمولانا ابوالکلام آزاد)۔
          توریت کتاب پیدائش اور تواریخ اوّل میں عوض (جس کے نام پر یہ ملک تھا) کو ارم بن سام بن نوح کا بیٹا کہا ہے۔ قبیلہ آرامی بالاتفاق عرب عاریہ کی ابتدائی جماعتوں میں سے ہے۔
          اس مقام کو ایسی جگہ ہونا جہاں سبا اور بابل کے باشندے آکر حملہ آور ہوا کرتے تھے، ایک مزید جغرافیائی روشنی ہے کیونکہ ایسا مقام بجز عرب کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔یقینا یہ عرب کا وہی مقام ہوگا، جو آگے چل کر قبیلہ  مدین کی بستی بنا یعنی خلیج عقبہ کا مشرقی ساحل۔
          لیکن افسوس یہ ہے کہ ابھی تک اس چشمہ کے وجود اور محل وقوع کی تصدیق نہیں ہوسکی ۔
    حضرت ایوب علیہ السلام:
          اکثر مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام حضرت ابراہیم کی نسل سے تھے ۔ عساکر کا قول ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی ماں حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔ بیوی کا نام رحمت بتایا جاتا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی دولتِ فراواں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ ؑ بے حد مخیرتھے اور غریبوں، مصیبت زدوں، مہمانوں اور اجنبیوں پر بڑی شفقت فرماتے تھے (اسرائیلی بیان ہے کہ) آپ کی اس پرہیزگاری اور خدا ترسی سے ابلیس کے سینے میں دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی اوراس نے اللہ تعالیٰ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمانے کی اجازت طلب کی۔ اللہ کی جانب سے اجازت مل گئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کے تمام عزیزوں نے چھوڑ دیا، صرف ایک وفادار بیوی باقی رہ گئیں جو ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں، حتیٰ کہ جب آپ کو کوڑے پر پھینک دیاگیا تو اس وقت بھی بیوی نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ دوستوں کی غلط فہمی حضرت ایوب علیہ السلام کی تکالیف میں مزید اضافے کا باعث ہوئی۔ جب اس ابتلاء سے بھی آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ ہوئی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ بشارت لائے کہ آپ ایک کراماتی چشمے کے ذریعے ابتلاء سے نجات پائیں گے۔ آپ علیہ السلام کا دور حضرت یوسف یا حضرت سلیمان یا حضرت یونس علیہم السلام کے بعد ہے۔ ( البدایۃ والنہایۃ،، فتح الباری،تلخیص اردو دائرہ معارف اسلامیہ)۔
          المسعودی نے لکھا ہے کہ دمشق کے نزدیک نویٰ میں سیدنا ایوب علیہ السلام کا مقبرہ زیارت گاہِ خاص وعام تھا۔ یہاں وہ چٹان اب تک دیکھی جاسکتی ہے جہاں بیٹھ کر آپ نے زمانۂ ابتلاء بسر کیاتھا اور وہ چشمہ بھی ہے، جس میں غسل کرکے آپ ؑ نے شفا پائی تھی(مروج الذہب) ۔
    سید حامد عبدالرحمن الکاف اپنے مضمون ’’ارض سبا کا سفرنامہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
     ’’سبا سے مآرب جاتے ہوئے راستے میں ہم سے کہا گیا کہ یہ جبل ایوب (علیہ السلام) ہے اور یہ کہ پہاڑ کی چوٹی پر ساری علامتیں اب تک محفوظ ہیں۔‘‘
          یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جب محمد بن قاسم نے ملتان کو فتح کیا تو اس وقت وہاں کے بڑے مندرکا بت حضرت ایوب علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا (البلاذری: فتوح ،اردو دائرہ معارف اسلامیہ)۔
          نویٰ:
     اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق ’’نوا ‘‘(نویٰ) دمشق کے جنوب میں علاقہ جولان میں واقع ہے۔مشہور محدث امام یحییٰ بن شرف نووی یہیں پیدا ہوئے تھے۔
    چشمۂ  مریم:
          اس چشمہ کا تعلق حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے ہے۔ جب حضرت مریم  رضی اللہ عنہا پیداہوئیں تو وہ آغاز سے ہی اپنی خالہ کی آغوشِ شفقت میں پرورش پانے لگیں، انکی خالہ حضرت زکریا علیہ السلام کی زوجہ محترمہ تھیں۔ بچپن سے ہی حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو عبادت بہت مرغوب تھی۔جب وہ سنِ شعور کو پہنچیں تو اپنے خالو سیدنازکریا علیہ السلام سے کہہ کر بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے کنارے اپنے لیے ایک حجرہ حاصل کرلیا۔ دن بھر عبادت کرتیں اور رات کو خالہ کے گھر آجاتی تھیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام جب کبھی ان کے حجرے میں جاتے تو ان کے پاس بے موسم کے پھل نظر آتے تو وہ جواب دیتیں کہ اللہ کی قدرت سے یہ سب کچھ مجھے مل رہا ہے۔
         ایک دن سیدہ مریمؓ عبادت میں مشغول تھیں کہ اچانک حضرت جبریل علیہ السلام اللہ کے حکم سے انسانی شکل میں نمودار ہوئے اور بشارت دی کہ تمہارے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا۔کہنے لگیں میں غیرشادی شدہ ہوں اور کسی مرد نے مجھے چھوا بھی نہیں ، تو لڑکا کیسے پیدا ہوگا؟ حضرت جبرئیل پھونک مارکر واپس ہوگئے، کچھ عرصہ کے بعد ان کو حمل پڑگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہاں ایک کھجور کے خشک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ بیٹھتے ہی دردِ زہ شروع ہوگیا۔ یکایک کھجور کا سوکھا درخت سرسبز وشاداب ہوگیا، اس کی ڈالیاں کھجوروں سے لدگئیں اور بالکل سامنے نشیبی حصہ میں ایک چشمہ جاری ہوگیا۔
    چشمۂ  مریم کے بارے میں مولانا ابوالبیان حماد عمری کی چشم دید شہادت:
          ’’چشمہ ایوب اور چشمہ مریم کے تعلق سے مضمون میں عرض کیاگیا تھا کہ ان دونوں چشموں کی بابت قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ موجود ہیں یا کالعدم ہوگئے۔ اگر موجود ہیں تو کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ البتہ جہاں تک ان کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے، اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ دونوں چشموں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ مسجد اقصیٰ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک مقام ہے، جہاں ایک کھجور کا درخت ہے جو کسی کی ملکیت میں نہیں اور ایک چشمہ موجود ہے جسے ’’چشمۂ  مریم‘‘ کہا جاتاہے۔ لوگ وہاں سیر وتفریح کے لیے پہنچتے ہیں اور کھجور کا موسم ہوتا ہے تو درخت سرسبز وشاداب ہی نہیں ہوجاتا بلکہ پھلوں سے لدا ہوا ہوتا ہے۔ لوگ کھجوریں کھاتے ہیں اور چشمۂ  مریم سے پانی پی کر سیراب ہوتے ہیں۔‘‘(راہِ اعتدال)۔
    چشمۂ زمزم:
          جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت ورسالت کا یادگار اور تاریخ ساز دورآیاتو مشیت کی رضا ہوئی کہ خانہ کعبہ کی ’’تعمیرِ جدید‘‘ عمل میں لائی جائے۔ اس وقت خانۂ کعبہ کی بنیادیں مٹی میں دبی ہوئی تھیں اور سرزمینِ حجاز کی وہ وادی غیرذی زرع تھی، جہاں کوئی پرندہ بھی موجود نہیں تھا۔ اس جنگل اور بیابان کو آباد کرنا محال نہیں تو انتہائی دشوار ہوگیا تھا۔ کسی درجے میں بھی بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ وہاں آبادی کی کوئی شکل نکالی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی غیرمعمولی قدرت کی کرشمہ سازی سے کام لے کر ’’وادیٔ غیرذی زرع‘‘ کو بسانے کا انتظام کردیا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا مرکز شام وفلسطین کا علاقہ تھا۔ اپنی زوجہ کے ساتھ وہیں رہ کر آپ فریضۂ دعوت وارشاد انجام دے رہے تھے۔ پیرانہ سالی کے سبب نہ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ ؑسے کوئی اولاد ہوئی اور نہ دوسری اہلیہ حضرت ہاجرہؑ کی گود ہری ہوئی۔ بندہ اللہ کے دل دردمند سے فرزندِ ارجمند کے لیے یہ فریاد لب ہائے مقدس پر آتی رہی اور بابِ الٰہی پر دستک دیتی رہی:
     رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْن(الصافات100)۔
    میرے پروردگار مجھے صالح اولاد عطا فرما‘‘۔
     اور اللہ تعالیٰ کے بندے خلیل کی دعا کو شرفِ قبولیت حاصل ہوئی اور حضرت ہاجرہؑ کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ کی ولادت ہوئی۔ سیدناابراہیم علیہ السلام کو نور نظر اور ماؤں کو لختِ جگر مل گیا۔سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ولادت پر ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ابتلاء وآزمائش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاگیا کہ ماں اور بچہ دونوں کواُس بیابان میں لے جاکر چھوڑ دیا جائے جہاں خانہ کعبہ کی صرف بنیادیں تھیں۔ خلیل اللہ  ؑبے چون وچرا سیدہ ہاجرہ علیہا السلام اور نومولود کو ساتھ لے کر گھر سے روانہ ہوگئے۔ ساتھ کھجوریں اور تھوڑا سا پانی لیتے گئے۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ جہاں تعمیرِ جدید ہونے والی تھی، وہاں سیدہ ہاجرہ ؑ  کو بٹھادیا اور معصوم بچے کو اپنی آغوشِ شفقت سے ماں کی گود میں رکھ دیا اور بغیر کچھ کہے واپس جانے لگے۔
    سیدہ ہاجرہؑ کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا کہ یہ سب کچھ کیا ہونے جارہا ہے۔وہ نومولود کو ’’سبزئہ نورْس‘‘ کے فرش پر لٹاکر کھڑی ہوگئیں اورسیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دامن تھام کر پوچھنے لگیں کہ مجھے اوراس ننھے بچے کو یہاں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں؟سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر ایسی رقت طاری ہوگئی تھی کہ زبان یاری نہیں کررہی تھی، کچھ بھی بول نہیں پارہے تھے، خودہی پوچھنے لگیں کہ کیا ہمارے رب کے حکم سے آپ ہم کو یہاں چھوڑ کر جارہے ہیں؟سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سرمبارک کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر ’’پیکرِ تسلیم کی زبان سے وہ کلمہ نکلا، جسے صبر وضبط اور توکل وتحمل کی تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ رکھا ہے، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں، انہوں نے کہا:
     اذاً لاَ یُضِیْعنَا ۔
    ’’اب آپ تشریف لے جائیے ہمارا پروردگار ہمیں برباد نہیں کرے گا‘‘۔
     حضرت ابراہیم علیہ السلام کی واپسی کے بعد جلد ہی کھجور اور پانی دونوں ختم ہوگئے۔
      جس کے نتیجے میں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا دودھ بھی خشک ہوگیا اور وہ بے چین وبے قرار ہوگئیں مگر ان کی پریشانی، ان کی اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اپنے لعل کے لیے تھی۔ معصوم بچہ دودھ کے لیے تڑپ رہا تھا اور بلک رہا تھا۔ قریب میں ’’صفا اور مروہ‘‘ کی پہاڑیاں تھیں ’’قدرتِ الٰہی کی کرشمہ سازی سے کبھی چٹانوں سے بھی جھرنے پھوٹ جاتے ہیں‘‘۔ یہی سوچ کر سیدہ ہاجرہؑ پہلے صفا کی پہاڑی کے پاس پہنچیں اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔ پانی کا کوئی قطرہ اس کی سطح پر نظر نہ آیاتو اوپر چڑھ کر چاروں طرف دیکھنے لگیں کہ شاید کہیں پانی نظر آجائے، پھر ’’صفا‘‘ سے نیچے اتریں اور دوڑتی ہوئی ’’مروہ‘‘ کے پاس پہنچ گئیں اور اس کے بھی اوپر چڑھ کر ہر طرف پانی کو تلاش کرنے لگیں۔ امید وبیم کی اس کشمش میں نیچے اتریں تو معصوم بچے کی فکر لاحق ہوئی۔ بچے کے پاس پہنچیں تو اس کی گریہ وزاری تھی جو بڑھتی جارہی تھی۔ پھول جیسے ہونٹوں کی پنکھڑیاں سوکھی جارہی تھیں۔ ماہیٔ بے آب کی طرح بے تاب ہوکر سیدہ ہاجرہؑ پھر صفا ومروہ کے درمیا چکر لگانے لگیں، اس طرح 7چکر مکمل کرنے کے بعد اپنے لخت جگر کے پاس پہنچتی ہیں تو یہ دل نواز منظر دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں کہ جہاں بچہ بھوک اور پیاس کی شدت سے ایڑیاں پٹک رہا تھا وہاں ایک چشمہ ابل رہا ہے۔سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کو اندیشہ لاحق ہوا کہ پانی کہیں اِدھر اُدھر پھیل کر ختم نہ ہوجائے اس لیے پانی کے چاروں طرف بند باندھنے لگیں اور پانی سے کہتی جارہی تھیں ’’زمزم زمزم‘‘ جس کا معنیٰ اردو میں یوں ہے ’’تھم تھم تھم تھم‘‘۔ بند باندھنے پر پانی تھم گیا اور اس کی شکل ایک کنویں جیسی بن گئی جسے ’’چاہِ زمزم‘‘ کہا جاتاہے۔
     نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ہاجرہؑ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
     ’’اللہ تعالیٰ ہماری ماں پر رحم فرمائے، اپنے خیال میں یہ سمجھ کر وہ پانی پر بند باندھنے لگیں کہ پانی ہر طرف بہہ کر کہیں ختم نہ ہوجائے‘‘۔
    آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ: اگر (سیدہ) ہاجرہ (علیہا السلام )اس پانی کو یونہی چھوڑ دیتیں تو وہ بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔
     اگر وہ ’’چشمۂ زمزم‘‘ پر بند نہ باندھی ہوتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ پانی کس قدر دور تک چلاجاتالیکن بند کی وجہ سے وہ آگے پھیل نہ سکا۔ محدود ہوکر رہ گیا اور ’’جوئے زمزم‘‘ کے بجائے ’’چاہ زمزم‘‘ بن گیا‘‘۔
     شاید اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت رہی ہوگی۔ یہ تھا پہلا قدرتی چشمہ جو حرم کعبہ میں موجود ہے۔ پوری دنیا سے حج وزیارت اور عمرے کے لیے جو مسلمان مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں، آب زمزم پی کر آسودہ سیراب ہوجاتے ہیں، نیز حج کے ارکان میں ایک رکن یہ بھی ہے کہ خانۂ کعبہ کا طواف کرنے کے بعد سیدنہ ہاجرہ ؑ کے شیوئہ تسلیم ورضا کی یاد تازہ کرتے ہوئے، صفا ومروہ کے درمیان 7 چکر بھی لگائیں کیونکہ اس کے بغیر حج وعمرہ کی تکمیل نہیںہوسکتی۔
     آج اس پانی کی فیضیابی مکہ سے مدینہ تک پہنچی ہوئی ہے اور مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی شریف میں اتنے وافر مقدار میں زمزم کا پانی ہوتا ہے کہ تمام حاجی اور عمرہ والے حضرات کی کفالت کرتاہے بلکہ وہ اپنے اپنے وطنوں کو بھربھر لے بھی جاتے ہیں (تلخیص از: راہِ اعتدال)۔
مزید پڑھیں:-  - - -قرآن کریم پڑھنے کے لیے بھی فرصت نہیں

شیئر: