اولیاء اللہ کے لئے کرامت کا ظہور شرط ہے؟
آج بھی دنیا ان بزرگوں سے خالی نہیں،جو لوگ اللہ والے ہیں ، ان کو دیکھنے سے ہی ہمارا دل پکار اٹھتا ہے کہ یہ صلحاء،اتقیاء اور نیک ہیں
مفتی تنظیم عالم قاسمی۔حیدرآباد دکن
عبادت وریاضت اور ذکرو اذکار کی وجہ سے بندوں کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہوجاتا ہے اور اس کا قربِ خاص نصیب ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں انہیں اللہ تعالیٰ سے ایسی نسبت حاصل ہوتی ہے جو دوسروں کو نہیں ہوتی۔اس قربِ خاص اور نسبت کی وجہ سے ان پر رحمت الٰہی کے ایسے انوار و برکات نازل ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر بے ساختہ اللہ یاد آجاتا ہے۔عبادت اور کمال تعلق کی بنیادپر وہ ایسے درجے پر فائز ہوجاتے ہیں کہ ان کے احوال و کردار ،عادات و اطوار اور حرکات و سکنات پر انوار و آثار الٰہی صاف طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے چہرے پر عبادت گزاری ، کثرت سجدہ ،اتباع سنت وشریعت کی وہ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں کہ جب ان کے حسن و جمال اور چہرے کی چمک پر نظر پڑتی ہے تو دل میں اللہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کا مل عبودیت کے حامل ، کائنات انسانی کا خلاصہ اور انوار الٰہی کے مظہر ہیں، چنانچہ حضرت اسماء بنت یزید ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے فرماتے ہوے سنا :
’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں بہترین لوگ کو ن ہیں ؟‘‘
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : ضرور بتائیے ۔
آپ نے فرمایا :
تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔ ‘‘( ابن ماجہ)۔
رسول اللہنے بہتر اور اچھے لوگوں کی یہ پہچان بتائی کہ ان کے کردار اور اوصاف ایسے ہوں کہ ان کو دیکھنے سے آخرت یاد آجاتی ہو اور دل شہادت دے رہاہو کہ یہ چمکتی ہوئی پیشانی اور یہ چمکتا ہوا چہرہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔اس میں ایسی کشش ہوتی ہے جو دیکھنے والے دلوں کو متحیر کردیتی ہے اور لوگوں کو ان کا دیوانہ بنادیتی ہے۔اس کا کسی چہرے کے گورے اور کالے ہونے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کے چہرے میں چمک ہی جدا ہوتی ہے جو ان کے اللہ والا ہونے کی پہچان بن جاتی ہے ،چنانچہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ہر دیکھنے والا دیکھتے ہی زبان سے پکار اٹھتا ہے کہ بلاشبہ یہ اللہ والے ہیں اور یہ اللہ کے بندے ہیں۔ گویا ان کی کیفیات کو دیکھ کر ان کے بزرگ اور ولی ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کے یہاں بھی حقیقت میں پسندیدہ اور مقبول ہوتے ہیں، چنانچہ دوسری جگہ رسول اکرم نے اولیاء اللہ کی پہچان ہی یہی بتائی کہ جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے وہی اللہ کے ولی اور محبوب ہیں ۔
بزرگان دین کے واقعات اگر آپ پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ لاکھوں لوگ صرف ان کے چمکتے ہوے چہروں کو دیکھ اسلام میں داخل ہوگئے اور انہوں نے صاف انداز میں کہا کہ یہ چہرے ہرگز جھوٹے نہیں ہوسکتے ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ،شیخ جنید بغدادی ؒ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اور ان کی طرح سیکڑوں اولیاء گزرے ہیں جن کو دیکھنے والا ان کے خدا ترس ہونے اور ان کی صداقت و امانت کی شہادت دیتے ،ان کے ہاتھوں پر توبہ کرتے اور بہت سے غیر مسلم کسی دعوت اور تبلیغ کے بغیر صرف ان کو دیکھ کر ایمان میں داخل ہوجاتے تھے ۔
امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہؒ کے بارے میں مولانا محمد انوری فیصل آبادی اپنی تالیف ’’کمالات انوری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار صبح کا اجالا پھیلنے سے پہلے مولانا انور شاہ کشمیری وزیرآباد کے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں تشریف فرماتھے ۔تلامذہ اور معتقدین کا ہجوم اردگرد جمع تھا ۔اسی اسٹیشن کا ہندو اسٹیشن ماسٹر ہاتھ میں بڑا لیمپ لئے ہوے ادھر سے گزرا ۔حضرت کشمیری رحمہ اللہ پر نظر پڑی تو رک گیا اور غور سے دیکھتا رہا ،پھر بولا کہ جس مذہب کا یہ عالم ہے وہ مذہب کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا ۔اسی وقت اس نے حضرت کے ہاتھ پر کفر سے توبہ کی اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہوا۔اسی طرح کا واقعہ پنجاب میں بھی پیش آیا تھا کہ آپ رحمہ اللہ کے منور چہرہ کو دیکھ کر چند ہندوؤں نے ایک ساتھ ایمان قبول کرلیا تھا دوسرے ہندوؤں نے جب ان سے کہا کہ تم اپنے آباؤ و اجداد کے دین سے کیسے نکل گئے ہو ؟ان لوگوں نے مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہؒ کے چہرے کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگے کہ ذرا اس شخص کے چہرے کو دیکھو، یہ چہرہ کسی جھوٹے انسان کانہیں ہو سکتا۔
رسول اکرم کی حسین شکل و صورت پر جب کسی اجنبی کی بھی نظر پڑتی تو پہچان جاتے کہ آپ نبیٔ برحق ہیں۔ چہرۂ انور اور رخ زیبا میں اس طرح کی کشش ہوتی اور ایسا نور جھلکتا کہ دیکھنے والے شہادت دیتے کہ یہ جھوٹے کا چہرہ ہو ہی نہیں سکتا ،چنانچہ حضرت سلمان فارسی ؓ نے جب آپ کو پہلی بار دیکھا تو خود ان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہو سکتا اور فورا ًہی ایمان میں داخل ہوگئے(سنن ترمذی)۔
کفار مکہ بھی آپ کو جانتے اور پہچانتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ آپ اللہ کے بھیجے ہوے سچے نبی ہیں لیکن ایمان میں داخل صرف حسد کی بنیاد پر نہیں ہوتے کہ یہ نبوت ان کو کیوں مل گئی۔سنت نبویؐ کی اتباع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہی کیفیت اس امت کے بزرگوں میں پیدا کردیتا ہے جن میں جس قدر اتباع کی قوت ہوگی اسی اعتبار سے زبان و بیان اور ظاہر و باطن میں اثر پیدا ہوتاہے، چنانچہ دور حاضر کے معروف صاحب نسبت بزرگ حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم امریکہ میں نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے، سامنے روڈ تھا ۔ہم 2 آدمی آپس میں بات چیت کررہے تھے۔سامنے سڑک پر ایک خاتون تیزی کے ساتھ کار چلاتی ہوی گزری لیکن چند میٹر آگے جاکر اس نے بریک لگادی ،پھر اس نے گاڑی موڑی اور ایک دو منٹ میں اس نے ہمارے قریب آکر گاڑی کھڑی کردی ۔وہاں پر عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی جس منزل پر جارہا ہو اس کے پاس اس کا پورا ایڈریس نہ ہو تو اسے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی ہے چنانچہ ہم نے سوچا کہ ممکن ہے کہ یہ امریکی عورت راستہ بھول گئی ہو اور ہم سے کوئی پتہ معلوم کرنا چاہتی ہو۔اس عاجز نے اپنے ساتھ والے دوست سے کہا کہ آپ جائیں اور اس سے پوچھیں کہ کیا آپ کو ڈائریکشن کی ضرورت ہے ؟جب اس نے جاکر پوچھا تو وہ کہنے لگی: نہیں، میں تو اپنے گھر جارہی ہوں اور گھر کی ڈائریکشن تو ہر ایک کو آتی ہے ۔ہمیں کیا پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کو دنیا کے گھر کے بجائے اصلی گھر کا راستہ دکھانا چاہتا تھا ۔اس نے جب کہا کہ میں اپنے گھر جارہی ہوں تو ہمارے دوست نے پوچھا کہ پھر آپ نے یہاں کیوں بریک لگائی؟اس کے جواب میں وہ میرے طرف اشارہ کرتے ہوے کہنے لگی کہ یہ بندہ کون ہے؟اس نے کہا یہ شخص مسلمان ہے ۔وہ کہنے لگی کہ اس سے پوچھو کہ کیا یہ مجھے بھی مسلمان بنا سکتے ہیں ۔نہ نام کا پتہ اور نہ ایڈریس کا پتہ، صرف رسول اکرم کی سنتوں کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں ایسی تاثیر ڈال دی کہ وہیں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس نے کلمہ پڑھ لیا ۔اس عاجز نے اسے اپنا رومال دے دیا جس کو اس نے اپنا دوپٹہ بنا لیا اور پھر اپنے گھر کو روانہ ہوگئی( خطبات فقیر) ۔
آج بھی دنیا ان بزرگوں سے خالی نہیں ۔واقعتا جو لوگ اللہ والے ہیں اور جن کو خاص قرب حاصل ہے، ان کو دیکھنے سے ہی ہمارا دل پکار اٹھتا ہے کہ یہ صلحاء،اتقیاء اور نیک لوگ ہیں ۔وہ لوگ جن کو آپ جانتے اور پہچانتے نہیں ،پہلی مرتبہ آپ نے ان کو دیکھا ہے ، پھر بھی ان کی جاذبیت اور کشش کی وجہ سے آپ کے دل میں ان کی محبت پیدا ہوجائیگی اور آپ کا دل ان کی طرف کھنچ رہا ہوگا ۔یہ اللہ والوں کی پہچان ہے جن کو اس حدیث میں بہتر اور خیر ناس کہا گیا ہے ۔کسی کے بزرگ اور ولی ہونے کیلئے کرامت کا ظہور ہونا شرط نہیں اور نہ کسی ولی سے ہمیشہ کرامت کا ظہور ہوتا ہے اس لئے کہ یہ اختیاری چیز نہیں ، اللہ جب چاہتا ہے کرامت کا ظہور ہوتا ہے اس لئے عام آدمیوں کے لئے ولی کو پہچاننا مشکل تھا۔اتباعِ سنت و شریعت کے ذریعے بھی سب کیلئے پہچاننا مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے صحبت و معیت درکار ہے اور پھر وہ علم بھی ضروری ہے جس سے سنت کا امتیاز کیا جاسکے جو ہر ایک کو حاصل نہیں اس لئے کسی کی صالحیت اور ولایت کو پہچاننے کی یہ شکل بہت آسان اور عام فہم ہے کہ جس کو دیکھنے یا مجلس میں بیٹھنے کی وجہ سے دل میں گداز اور نور الٰہی کا احساس ہو سمجھ جانا چاہئے کہ وہ اللہ کادوست اور مقرب ہے ۔ان کے قرب و جوار میں رہنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ دین کا شعور ،اپنی معرفت ،جذبۂ عمل اور خوفِ آخرت پیدا کرے گاجو انسان کیلئے باعث نجات ہے اور یہی سیدھی راہ کی طرف لے جانے والا ہے۔
چور،ڈاکو ،دھوکہ بازاور فریب کاری کرنے والوں کا چہرہ الگ ہوتا ہے ۔ان کے چہرے پر نحوست چھائی رہتی ہے۔ان کا قلب سیاہ ہوتا ہے جس کا اثر ان کے کردار و عمل اور پیشانی پر یقینا ظاہر ہوتا ہے اور نیک لوگوں کے چہرے کی چمک ہی جدا ہوتی ہے۔ دونوں کے چہروں میں زمین و آسمان کا فرق ہے البتہ اس کو دیکھنے کیلئے صحیح نظر کی ضرورت ہے جو اسے پہچان سکے اور نیک و بد میں تمیز کرسکے۔
دنیا کی نظر میں بہتر وہ لوگ ہیں جن کے پاس مال و دولت زیادہ ہو ،جن کے پاس عہدے ہوں ،جن کی آواز میں تاثیر اور طاقت ہو ،عیش و عشرت کے ساز وسامان ان کے پاس ہوں ،خدام اور نوکر چاکر کی بھیڑ ہو۔ ایسے افراد کو بہت سے لوگ بہتر اور قابل رشک سمجھتے ہیں ۔رسول اکرم نے لوگوں کے سوچ اور ذہن میں تبدیلی پیدا کی ہے اور ان کو اسلامی نقطۂ نظر اور اللہ کے انتخاب کی طرف توجہ دلائی کہ یہ لوگ درحقیقت نیک اور بہتر ہیں اسی کے ساتھ آپنے تمام مسلمانوں کو گویا ان اوصاف کے حامل ہونے کی ترغیب دی اور انہیں ابھارا ہے کہ شریعت کی اتباع کرو،عبادت و ریاضت اور مجاہدۂ نفس کے ذریعے تم اس قابل بن جاؤ کہ تمہارے چہرے تمہاری صالحیت ،ولایت اور قرب خداوندی کے عکاس بن جائیں اور لوگ تمہیں دیکھ کر تمہارے نیک ہونے کی شہادت دیں ۔اگر ایسے اوصاف ،کردار و اخلاق پیدا ہوگئے تو تم دنیا میں بھی بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک بھی بہتر ین لوگوں میں تمہارا شمار ہوگا ،پھر ان سے زیادہ خوش نصیب کون ہے جن کو اللہ تعالیٰ بہترین لوگوں میں شامل کردے اور جن کی نیکی کا خود اللہ گواہ بن جائے۔
کاش ! سارے مسلمان قرآن کو اپنا آئین اور دستور بنالیں اور اسی پر عمل کرنے کو اپنا حقیقی مشن اور مقصدِحیات سمجھیں تو ہر جگہ اسلام نظر آئیگا اور لوگوں کیلئے اسلام کو سمجھنا آسان ہوجائے گا ‘پھر کسی تبلیغ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ ہمارے معاملات ‘ہمارے شب وروز ،ہمارے پاکیزہ کردار اور ہمارا مثالی معاشرہ ہی سب سے بڑی تبلیغ ثابت ہوگا اور لوگ خود بخود اسلام کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے لیکن آج عملی اعتبار سے حال یہ ہے کہ اسلام کی ساری تعلیمات کتابوں میں بند ہیں، کوئی شخص مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کو جاننا اور پہچاننا چاہے تو نہیں پہچان سکتا بلکہ ہمارے کاروبار ،معاملات اور کردار کو دیکھ کر وہ اسلام سے قریب آنے کے بجائے مزید متنفر ہو جائیں گے اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپکو بدلیں اور چلتا پھرتا قرآن بن جائیں ،پھر دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کوذلیل نہیں کرسکتی ۔