فہد غزاوی۔ سعودی میڈیا
ایران اندر سے ہر روز تبدیل ہورہا ہے۔ بیرونی دنیا بھی ایران کے منظر نامے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ جبکہ ایران کا داخلی منظر نامہ خارجی دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کررہا ہے۔ اس ہفتے کے نمایاں ترین واقعات یہ ہیں:
٭ برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے سفراءنے بیلسٹک میزائلوں سے متعلق ایران کی سرگرمیوں کیخلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت درج کرادی۔ یہ میزائل ایٹم بم لیجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مذکورہ تینوں ملکوں کے سفراءنے سخت لب و لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ بیلسٹک میزائلوں کو زیادہ موثر بنانے کیلئے ایرانی کاوشیں بڑی تشویش کا باعث ہیں۔ یہ میزائل خطے کے استحکام کو متزلزل کرسکتے ہیں۔ ان سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ تینوں سفراءنے توجہ دلائی کہ ایرانی میزائلوں سے متعلق جو اطلاعات ملی ہیں ان کا تقاضا ہے کہ تمام رکن ممالک اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ایران کے خلاف جاری کردہ قرارداد نمبر 2231پر ٹھوس عملدرآمد کا مطالبہ کریں۔ تینوں سفراءنے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام اپنے مکتوب میں مطالبہ کیا کہ وہ بیلسٹک میزائلوں سے متعلق ایران کی سرگرمیوں پر مفصل رپورٹ پیش کرکے بتائیں کہ وہ کس حد تک قرارداد نمبر 2231ءپر عمل پیرا ہے۔ جون میں اسے ششماہی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے۔
٭ ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا استعفیٰ مسترد کردیا۔ ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی ان اطلاعات کی بھی تردید کردی جن میں کہا جارہا تھا کہ ایرانی دفتر خارجہ میں ”سفیر“ کے درجے کے بعد سفارتکار اور عہدیدار اجتماعی استعفیٰ دینے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ترجمان کے بقول ان سب کا کہنا ہے کہ وہ اپنا کام انجام دیتے رہیں گے۔ البتہ ایرانی وزیر خارجہ نے استعفیٰ پیش کرنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں بتایا کہ انہوں نے تہران میں ایرانی مذہبی پیشوا علی خامنہ ای اور صدر حسن روحانی سے شامی صدر بشار الاسد کی ملاقاتوں میںانہیں شریک نہ کرنے پر استعفیٰ دیا تھا۔ ظریف نے کہا کہ ملاقاتوں کی تصاویر جاری ہوئیںجن میں وہ کہیں نہیں تھے۔یہ دیکھ کر انہیں لگا کہ عالمی رائے عامہ کے سامنے بحیثیت وزیر خارجہ انکی موجودگی بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ مبصرین کا بھی یہی کہناتھا کہ بشار الاسد کی ملاقاتوںسے خارج رکھ کر ظریف کی بڑی توہین کی گئی۔ کہاگیا ہے کہ حالیہ ایام میں شدت پسند عناصر ان پر دباﺅ بڑھاتے جارہے ہیں۔ ویسے اس سے قبل بھی یہ خبریں آئی تھیں کہ ایٹمی معاہدے کے نتائج پر ایرانی نظام کے مختلف گروپوں کے درمیان اختلافات بڑھ جانے پر ظریف نے استعفے کا ارادہ کرلیاتھا۔ شدت پسند عناصر کا کہناتھا کہ ایران نے کچھ نہ لیکر بہت کچھ دیدیا۔ ایرانی مذہبی پیشوا امریکہ کیساتھ نئے ایٹمی مذاکرات کے مخالف ہیں۔ انکا کہناہے کہ ایٹمی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کی امریکی پیشکش قبول کرنے والے غدار اور ایجنٹ ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ایرانی حکومت کے اندر بھی اختلافات کا لاوا پک رہا ہے۔ اعتدال پسندوں اور شدت پسندو ںکے درمیان اختلافات اور خود حکومتی اراکین میں نوک جھونک نے اصلاح پسند روحانی کی حکومت کو غیر معتبر بنادیا۔ اس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی۔ ظریف نے اسی سے بیزار ہوکر استعفیٰ دیا۔ انہیں برا لگا کہ ایرانی صدر شدت پسندو ںکے آگے جھک رہے ہیں۔ ظریف نے ملک کودرپیش بدترین اقتصادی اور سیاسی بحران کے دور میں استعفیٰ دیا جس کا اثر ایرانی کرنسی پر بھی پڑا۔ ڈالر اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر گھٹ گئی۔ مہنگائی کی نئی لہر چھا گئی جبکہ ابھی تک ایرانی نظام کے ایوانوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ امریکی پابندیوں کا جواب کیا اور کب دیا جائے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭