”پبلک ٹوائلٹ“ .... مسلمان تو ہیں لیکن کیسے؟
عبدالحلیم البراک ۔ مکہ
پبلک ٹوائلٹ دیکھ کر میں نے انتہائی دکھ کے ساتھ اپنے دوست سے کہا: ہم مسلمان تو ہیںمگر ہمارا حال افسوسناک ہے۔ دوست نے کہا کہ تمہارا مقصد کیا ہے؟ میں نے ٹوائلٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خود ہی دیکھ لیجئے۔ ہمارا مذہب ہمیں صفا©ئی کی ترغیب دیتا ہے مگر ہمارا حال کتنا برا ہے۔ ہم دونوں اس مسئلے پر بات چیت کرتے رہے۔ بات آگے نہیں بڑھائی کیونکہ اسکا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میرا دوست کہنے لگا کہ بھائی اسکا ایک حل ہے۔ میں نے کہا کہ بتائیے کیا ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر کوئی قابل عمل حل ہوتا تو آپ سے پہلے کوئی اور اسے پیش کرچکا ہوتا۔ کہنے لگا ایسا نہیں ۔ حل نہایت سادہ سا ہے۔ میرے اصرار پر بولا کہ بجائے یہ کہ ہم پبلک ٹوائلٹ قائم کریں انہیں نجی ٹوائلٹ میں تبدیل کردیں۔ سادہ سا حل ہے۔ تاجر ، خدمت گار اور نگراں حضرات نجی ٹوائلٹ کا انتظام سرکار کے مقابلے میں زیادہ بہتر شکل میں کرلیں گے۔ میں نے یہ سن کر ظاہر کیا کہ مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آرہی ۔ کہنے لگا کہ دیکھئے:
ریستورانوں اور تجارتی مراکز میں نجی ٹوائلٹ ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے قابل قبول ہیں جبکہ پبلک ٹوائلٹ کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں۔ پبلک ٹوائلٹ بنیادی طور پر کسی عظیم الشان تقریب یا اجلاس کے موقع پر کسی ایک جگہ چند گھنٹوں یا چند دنو ںکیلئے قائم کئے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ وقفے کیلئے پبلک ٹوائلٹ موثر ثابت نہیں ہوتے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اگر ہم پیٹرول اسٹیشنوں اور شاہراہوں پر نجی ٹوائلٹ قائم کرنا چاہیں تو کس طرح کرسکتے ہیں۔ کہنے لگا کہ بقالے یا سپر مارکیٹ کے ماتحت شاہراہوں پر نجی ٹوائلٹ قائم کئے جائیں۔ انہیں اسکا اجازت نامہ جاری کیا جائے۔ صفائی کا انتظام انکے حوالے کیا جائے اورناکامی پر انہی کا احتساب کیا جائے۔ تجارتی مراکز او رمال میںیہی اصول نافذ ہے۔ حالیہ ایام میں شاہراہوں پر ٹوائلٹ مساجد کے زیر انتظام ہوتے ہیں او رانکی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ میرا دوست اپنے تصورکی تفصیلات بتاتے ہوئے کہنے لگا کہ ہمیں پبلک مقامات پر مساجد اور انکے ماتحت وضو خانے رکھنے پر اکتفا کرنا چاہئے۔ جہاں تک ٹوائلٹ کا تعلق ہو تو اسے سپر مارکیٹ یا پیٹرول اسٹیشن پر موجود بقالے سے مربوط کردینا چاہئے۔ خریدار انہیں مشروط طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ اس قسم کے ٹوائلٹس کا نظام بہتر شکل میں چلنے کی بڑی ضمانت یہ ہے کہ جو سپر مارکیٹ غیر معیاری سامان فروخت کرتی ہے وہ ناکام ہوجاتی ہے، اسی طرح اس کے زیر انتظام گندے طہارت خانے بھی ناکام ہونگے اور اس ناکامی کی ذمہ دار سپرمارکیٹ ہوگی۔ میرے دریافت کرنے پر دوست نے کہا کہ نجی ادارے کو ٹوائلٹ چلانے کا ٹھیکہ دیا جائے۔ اسکی نگرانی رکھی جائے۔ جہاں تک مساجد کے ماتحت وضو خانوں کا تعلق ہے تو یہ انہی کے تحت رکھے جائیں البتہ مساجد کے اطراف قائم وضو خانوں کی صفائی کا ٹھیکہ 5برس کےلئے کسی ایک صفائی کمپنی کو دیدیا جائے۔
میرے دوست نے مزید کہا کہ ہمیں صفائی اسکیموں میں سرمایہ لگانا چاہئے۔ اسکی ترغیب دینی چاہئے۔ اسی کے تحت اعلیٰ درجے کے ٹوائلٹ قائم کئے جائیں۔ انکی صفائی کا اہتمام کیا جائے۔ بعض یورپی ممالک میں اسکا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اگر ہم اغیارکی اچھی اسکیموں کو اپنے یہاں نافذ کریں تو ہمارے بڑے شہر بھی اغیار کے شہروں کی طرح صاف ستھرے اور خوبصورت ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭