کراچی ( صلاح الدین حیدر ) پیپلز پارٹی سندھ میں پچھلی 3 دہائیوں سے سندھ میں برسراقتدار ہے۔ 1972ءسے صرف 2 ایسے مواقع آئے جہاں ن لیگ یا پھر جنرل پرویز مشرف کی حکومتیں یہاں قائم ہوئیں۔ 1990ءسے 1993ءتک جام صادق علی، نواز شریف کے نمائندے کی حیثیت سے سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے۔ پھر 1997ءسے 1999ءلیاقت جتوئی ن لیگ کی حکومت کے سربراہ رہے اور 2002ءسے 2007 تک علی محمد مہر اور ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے حکومت سنبھالی۔ پچھلے 10 برسوں سے پھر پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے سندھ میں برسراقتدار ہے۔ اب کچھ مشکلات سے دو چار نظر آتی ہے۔ 2بڑے مسائل کا اسے سامنا ہے۔اول تو سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے خلاف نیب نے مقدمہ قائم کر رکھا ہے۔ ان پر آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ نیب جلد حقائق عدالتوں میں پیش کر دے گی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ہمشیرہ فریال تالپور کیخلاف بھی نیب تحقیقات جاری ہیں۔ اسپیکر کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے اور مجرم پائے جاتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو حکومت سنبھالنے میں ہزیمت کا سامنا ہوگا۔ اس کی شہرت کو بہت نقصان پہنچے گا لیکن پھر بھی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ سندھ میں چونکہ کوئی اور سیاسی طاقت نہیں اس لئے آئندہ انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی ہی فاتح رہے گی۔ ابھی یہ مسئلہ تازہ ہی تھا کہ تحریک انصاف نے حکمران جماعت کےلئے ایک اور مصیبت کھڑی کردی۔ تحریک انصاف نے پچھلے سال انتخابات میں کراچی سے 24 صوبائی اسمبلی کی اور 14 قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر کراچی کو اپنا شہر ڈیکلیئر کردیا ۔ ظاہر ہے کہ اس کے ایم پی اے فردوس شمیم نقوی نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین شپ حاصل کرنے کےلئے احتجاج شروع کردیا ۔ بات ویسے بھی صحیح لگتی ہے۔ اگر قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے شہباز شریف کےلئے پبلک اکاونٹس کمیٹی کا منصب اپوزیشن پارٹیوں کےلئے حاصل کیا تھا تو پھر سندھ میں بھی وہی اصول اپنانا تو پڑے گا۔ ایک ہی ملک میں 2 اصول تو نہیں چل سکتے لیکن پیپلز پارٹی یہ عہدہ تحریک انصاف کو دینے کےلئے تیار نہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی میں ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ اسمبلی ہال مچھلی بازار بن گیا پھر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسمبلی کے باہر مظاہرہ کیا کہ اسے اس کا حق ملنا چاہیے۔ اب پارٹی پر کڑا وقت ہے۔ دیکھیں مراد علی شاہ یا پارٹی اس مسئلے کو کیسے حل کرتی ہے۔