واحدکوہستانی آواز جو خاموش کر دی گئی
اے وحید مراد
کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے اہم کردار افضل کوہستانی کی نعش کا پوسٹ مارٹم ایبٹ آبادکے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں مکمل کر لیا گیا ہے ۔
افضل کوہستانی کے قتل کی تفتیش کرنے والے تھانہ کینٹ کے سب انسپکٹر شیر محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقتول کے بھانجے فیض الرحمان کو حراست میں لیا گیا ہے تاہم اب مقتول کے لواحقین تھانے آئے ہیں اور ان کے ساتھ بات ہورہی ہے ۔
بدھ کی رات ایبٹ آباد کی مرکزی شاہراہ پر قتل کیے جانے والے افضل کوہستانی گذشتہ سات برس سے ہمت اور بہادری سے عدالتوں کے ذریعے کوہستان کے ان افراد کو سزائیں دلوانے کے لیے سرگرم تھے جنہوں نے ان کے بقول سنہ 2012 میں ایک ویڈیومیں نظر آنے والی لڑکیوں کو قتل کیا تھا ۔
افضل کوہستانی ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کے سلسلے میں ایبٹ آباد آئے تھے ۔ قتل کیے جانے سے چند گھنٹے قبل ایک ویڈیو پیغام میں افضل کوہستانی نے کہا تھاکہ وہ سٹی پولیس سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھانے میں گئے تھے ۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ’مجھے پولیس نے زدوکوب کیااور حوالات میں بھی بند رکھا۔‘
تاہم ایبٹ آباد کے ضلعی پولیس افسر عباس خان مروت نے اردو نیوز کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی یہ ویڈیو دو برس پرانی ہے۔
سپریم کورٹ میں افضل کوہستانی کے مقدمے کی وکالت کرنے والے خواجہ اظہر رشید ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت سے سیکورٹی فراہم کرنے کی استدعا کی تھی مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا، ایک قیمتی جان چلی گئی ۔
خواجہ اظہر رشید نے افضل کوہستانی سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ’غالبا سنہ 2015میں یہ لڑکا میرے پاس آیا تھا کہ میرا کیس لے لیں لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘ ان کا کہناتھا کہ بطور پیشہ ور وکیل اس کو بتایا کہ کسی اور کے پاس چلے جائیں،مفت مقدمے نہیں لڑتا ۔ ’پھر وہ دو تین دن لگارہا۔ میں نے کہا کہ اچھا مجھے فائل دیں پڑھ لیتا ہوں۔‘
اظہر رشید ایڈووکیٹ کے مطابق کیس کی فائل میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ مقدمہ بن سکتا مگر افضل نے کہا کہ ’آپ درخواست فائل کردیں، اللہ مالک ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سنہ 2015سے لے کر آخری سماعت تک کیا کچھ نہیں کرنا پڑا۔ ’مگر اب ہم کیا کرسکتے ہیں، وہ تو چلا گیا۔‘
عدالت عظمی میں آخری سماعت کے بعد افضل کوہستانی نے اس نامہ نگارکو انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس کے تین بھائی قتل کیے جا چکے ہیں اور اب اس کی جان کو بھی خطرہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ سال بعد حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ لڑکیاں قتل کی گئی ہیں۔’یہ بات میں پہلے دن سے کہہ رہا تھا۔‘
اظہر رشید ایڈووکیٹ نے کہا کہ یکم جنوری 2019 کو جب سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا حکومت نے تسلیم کیا کہ کوہستان ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے تو عدالت عظمی نے مقدمے اس آبزرویشن کے ساتھ نمٹایا کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آیا تو دوبارہ بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب پیچھے رہا ہی کوئی نہیں تو عدالت کون جائے۔‘ اظہر رشید ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’افضل کوہستانی اس علاقے سے روایات کے خلاف اٹھنے والی اکیلی آواز تھی جو خاموش کر دی گئی۔ اب اگلے 50سال تو کوہستان سے کوئی آواز نہیں اٹھنی، افضل کے ساتھ جو ہوا اس کو دیکھتے ہوئے کسی نے آواز اٹھانی بھی نہیں۔‘
کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیا تھا؟
سنہ 2012 میں خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع کوہستان کے شہر پالس سے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں پر دو مقامی لڑکے رقص کر رہے تھے ۔
اس ویڈیو کو سامنے لانے والے افضل کوہستانی تھے جنہوں نے دعوی کیا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی چاروں لڑکیوں کومقامی روایات کے تحت غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا ہے جبکہ ویڈیو میں رقص کرنے والے دونوں لڑکوں کی زندگی کو بھی خطرہ ہے ۔
افضل کوہستانی نے کہا تھا کہ ویڈیو میں رقص کرنے والے لڑکوں کے نام بن یاسر اور گل نذرہیں جو ان کے بھائی ہیں جبکہ قتل کی گئی لڑکیوں کے نام بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور شاہین ہیں ۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس ویڈیو اور افضل کوہستانی کے دعوے کے بعد احتجاج کیا تھا ۔ یہ معاملہ میڈیا میں سامنے آنے کے بعد چار جون 2012کو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔
اس کمیشن نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیلی کاپٹر پر دور دراز کوہستان کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ویڈیومیں نظر آنے والی لڑکیوں کے قتل کے شواہد نہیں مل سکے ۔ کمیشن کی ایک رکن فرزانہ باری نے رپورٹ سے اختلاف کیا تھا ۔
سپریم کورٹ نے سنہ 2016 میں اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے دوسرا عدالتی کمیشن ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج داسو، کوہستان محمد شعیب کی سربراہی میں قائم کیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کے زندہ ہونے پر شکوک ظاہر کرتے ہوئے عدالت عظمی سے فرانزک ٹیسٹ کرانے کی تجویز دی ۔
عدالتی ہدایت کے بعد خیبر پختونخوا پولیس حکام نے نادراسے لڑکیوں کا ریکارڈ حاصل کیا اور ان کے فنگر پرنٹس کے ذریعے معلوم ہوا کہ تین لڑکیاں قتل کی جا چکی ہیں ۔
ویڈیو سامنے آنے کے ساڑھے چھ برس بعد خیبر پختونخوا حکومت نے سپریم کورٹ میں تسلیم کیا کہ تین لڑکیاں قتل کی گئی ہیں اور ملزمان کے خلاف مقدمات درج کرکے گرفتار کیا جا چکا ہے ۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جب یہ مقدمہ نمٹایا تو افضل کوہستانی نے عدالت میں اپنے وکیل کے ذریعے مؤقف اختیار کیا کہ تین نہیں پانچوں لڑکیاں قتل کی جا چکی ہیں اور پولیس نے تاحال اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کیا ۔
سپریم کورٹ نے افضل کوہستانی کی درخواست نمٹاتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں ۔