وسیم عباسی
افغان طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے حوالے سے انکشافات سے بھرپور کتاب ”دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر“ کی مصنفہ بیٹی ڈیم نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور اس کے امریکی شراکت داروں کےلئے ان کی تحقیق کو ہضم کرنا مشکل ہے۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی اور مصنفہ نے افغان صدر کے ترجمان ہارون چاخانصوری کی طرف سے اپنی کتاب مسترد کئے جانے پر انہوں نے کہا ”میں یہ سمجھ سکتی ہوں کہ اس کتاب میں کی گئی تحقیق کے نتائج کابل اور اسکے امریکی پارٹنرز کےلئے ہضم کرنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ وہ سالہا سال تک کہتے رہے کہ ملا عمر پاکستان میں رہ کر افغان مزاحمت کو کنٹرول کررہے ہیں“۔
یاد رہے کہ مس ڈیم نے5سال افغانستان میں رہ کر تحقیق کے بعد یہ دعوی کیا تھا کہ ملاعمر افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد کبھی پاکستان نہیں گئے بلکہ وہ 2013 میں اپنی وفات تک افغان صوبہ زابل میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے۔ ای میل کے ذریعے اردو نیوز کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے مصنفہ نے کہا کہ” بے شک بہت سارے طالبان رہنما پاکستان میں رہ رہے ہیں جن میں کچھ کو حکومت کی پشت پناہی ہوتی ہے اور کچھ کو مقامی طاقتور افراد کی مگر میں نے ملاعمر کے حوالے سے5 سال تک تحقیق کرکے جان لیا کہ ملا عمر بیرونی ممالک پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے نائن الیون کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اپنے قبیلے کے ساتھ رہیں گے اور پاکستان نہیں جائیں گے کیوں کہ پاکستان نے ان کے ساتھی امریکہ کے حوالے کئے تھے“۔
طالبان کی تصدیق۔افغان صدارتی ترجمان کی تردید
بیٹی ڈیم کے دعوے کو دنیا بھر کے میڈیا نے نمایاں کوریج دی اور اسے امریکی سی آئی اے اور افغان حکومت کےلئے شرمندگی سے بھرپور انکشاف قرار دیا۔مگر افغان صدارتی ترجمان نے اپنی ٹویٹ میں کتاب کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ”ہمارے پاس کافی ثبوت موجود ہے کہ وہ (ملاعمر) پاکستان میں رہے اور وہیں فوت ہوئے۔ “
دوسری طرف طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ”کتاب میں کیا گیا دعوی درست ہے۔ ملاعمر نے ساری زندگی افغانستان میں گزاری۔ پاکستان یا کسی اور ملک ایک دن کے لئے بھی نہ گئے۔“