باطل عقائد ، جہالت اورحق سے دوری دل کو کوئی گزند نہ پہنچا سکے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دل مردہ ہوچکا یا سخت بیماری کا شکار ہے
مولانامحمد عابد ندوی۔ جدہ
انسان کے پہلو میں دھڑکتا دل معنوی اعتبار سے 3 طرح کا ہوتا ہے۔ صحیح وتندرست دل ، مردہ دل اور بیمار دل۔ قلب ِصحیح سے مراد وہ تندرست اور صحیح سالم دل ہے جو ہر ایسی خواہشِ نفس سے پاک ہوجو رضائے الٰہی کیخلاف ہے، اﷲ کے سوا کسی غیر کی عبودیت کا اس میں شائبہ بھی نہ ہو ، کسی سے محبت کرے تو اﷲ ہی کیلئے کرے ، کسی سے بغض رکھے تو بھی اﷲ ہی کیلئے بغض رکھے ، کسی کو کچھ دے تو بھی اﷲ ہی کیلئے ، غرضیکہ ہر کام میں اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی پیش نظر رہے ، عقیدہ و فکر قول و عمل سب کچھ اﷲ اور اس کے رسولکے احکامات جو اﷲ تعالیٰ ہی کے نازل کردہ ہیں کے تابع ہو۔جس شخص کے سینے میں ’’قلب ِسلیم ‘‘ ہو اس کیلئے روز قیامت کامیابی کی خوشخبری و بشارت ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ جس دن مال و اولاد کچھ فائدہ نہ دیں گے سوائے اسکے جو اﷲ کے پاس ’’ قلب ِسلیم ‘‘ لے کر جائے۔ ‘‘ ( الشعراء89,88)۔
اس کے مقابلے میں دل کی دوسری قسم ’’ مردہ دل ‘‘ ہے ، جو قلب ِسلیم کی ضد ہے ۔ یہ نہ اپنے رب کو پہچانتا ہے ، نہ اس کی عبادت و فرمانبرداری کرتا ہے بلکہ اپنی خواہشات کے تابع ہوتا ہے۔خواہشات کی تکمیل میں وہ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اس سے اس کا رب ، اس کا خالق و مالک راضی ہوگا یا ناراض ، وہ کسی سے محبت بھی کرتا ہے تو صرف اپنی خواہش کیلئے اور کسی سے بغض رکھتا ہے تو بھی اپنی خواہش نفس کی خاطر ، الغرض اس کی خواہشات ہی اس کی رہبر اور قائد ہوتی ہیں ، جیسے وہی اس کا معبود اور یہ اس کا بندہ و غلام ہو ، ہر حق و سچائی سے وہ اندھا بہرا ہوجاتا ہے ، جو دل خواہشات کے تابع ہو اور ہر لمحہ اس کے پیچھے چلے ،ایسا ’’ مردہ دل ‘‘ جس شخص کے پہلو اور سینے میں ہو وہ اسے بھی ہلاکت کے غار میں گرادیتا ہے کیونکہ ہدایت اس کا مقدر نہیں ہوتی اور وہ سیدھا راستہ چھوڑ کر گمراہی میں دور جاگرتا ہے ، اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد پاک پر غور کیجئے:
’’ کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے ؟ کیا آپ اسکے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ؟ کیا آپ اس خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ، وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے زیادہ بھٹکے ہوئے۔ ‘‘ (الفرقان44,43)۔
اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
’’ کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اﷲ نے اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھوں پر بھی پردہ ڈال دیا ہے ، اب ایسے شخص کو اﷲ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے؟ کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے ؟ ‘‘ ۔ ( الجاثیہ24,23)۔
ایسے مردہ دل انسان ظاہری اعتبار سے زندہ اور لوگوں میں چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے بھی ہوں تو حقیقت میں وہ مردہ ہیں کیونکہ وہ کان ، آنکھ اور دل جیسے اعضاء اور سمجھ بوجھ جیسی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی ان کا صحیح استعمال نہیں کرتے ۔ بالآخر جہنم ان کا ٹھکانہ ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کیلئے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے ، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ، یہی لوگ غافل ہیں۔ ‘‘
ان2 دلوں کے درمیان ایک تیسری قسم ’’ بیمار دل ‘‘ کی ہے جس میں کبھی زندگی کے آثار غالب ہوتے ہیں تو کبھی موت کے آثار نمایاں ، کبھی اس میں اﷲ تعالیٰ کی معرفت ، اسی پر ایمان و توکل ، اخلاص و محبت پائی جاتی ہے جو روحانی اعتبار سے زندہ دلی کی علامت ہے اور کبھی اس میں خواہشات کی محبت ان کی ترجیح اور انہیں حاصل کرنے کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے،حسد ، کبر و خود پسندی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں جو ہلاکت و تباہی کی علامات ہیں ۔ایسا دل ، ایمان و کفر ، حق وباطل اور اچھائی و برائی کے درمیان کشمکش میں ہوتا ہے ۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر اس کا جھکاؤ اورمیلان ہوتا ہے ۔ اگر اس کی اصلاح و تربیت کی جائے تو سلامتی اس کا مقدر بن جاتی ہے ورنہ یہ بھی ہلاکت سے قریب ہوجاتا ہے۔
روحانی و معنوی اعتبار سے دل تندرست اور صحیح سالم بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا مردہ بھی، تو یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ دل کی صحت و تندرستی اور بیماری یا موت کی علامات اور اس کے اسباب کیا ہیں ؟ تاکہ بیمار دل کی اصلاح کی جاسکے اور ہلاکت و بربادی کے انجام تک پہنچنے سے قبل اس کا علاج کیا جاسکے۔کبھی دل کی بیماری کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ یہ سخت بیمار اور کبھی مردہ بھی ہو جاتا ہے لیکن اس شخص کو اس کا پتہ تک نہیں چلتا جس کے پہلو میں ایسا بیمار یا مردہ دل ہے۔ اصحابِ دل علماء اور سلف ِصالحین نے صحیح و بیمار دل کی چند واضح علامات بیان کی ہیں تاکہ آدمی اس کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرسکے اور پھر اصلاح و تزکیہ کی فکر کرسکے۔ بیمار دل کی علامات میں سے اہم علامات یہ ہیں کہ گناہوں کے زخم سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے ، گناہ پر گناہ کرتا جائے لیکن اسے تکلیف و الم کا کوئی احساس تک نہ ہو ، اسی طرح باطل عقائد ، جہالت ، حق سے دوری ، دل کو کوئی گزند نہ پہنچا سکے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دل مردہ ہوچکا یا سخت بیماری کا شکار ہے کیونکہ دل زندہ اور تندرست ہو تو گناہ اور برائیوں سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر کڑھتا ، افسردہ ہوتا اور پشیمان ہوتا ہے۔ حق واضح نہ ہو ، اس سے ناواقف ہوتو اسے تکلیف پہنچتی ہے اور وہ حق کا متلاشی ہوتا ہے اور یہ احساسِ الم دل کی تندرستی اور زندگی کے بقدر ہی ہوتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیماری کا احساس ہوتا ہے لیکن دوا کی کڑواہٹ اس پر اتنی گراں گزرتی ہے کہ یہ مشقت اُٹھانے کے بجائے تکلیف کے باقی رہنے کو ہی وہ ترجیح دیتا ہے ۔
دل کی بیماری کی یہ بھی ایک اہم علامت ہے کہ وہ نفع بخش غذا کو چھوڑ کر نقصان دہ غذا کو ترجیح دینے لگے ، فائدہ مند دوا اور علاج کو ترک کرکے مہلک بیماری کو سینے سے لگائے رکھے جبکہ تندرست دل ایسا نہیں ہوتا۔وہ مفید کو ہمیشہ مضر پر ترجیح دیتا ہے ، دل کیلئے مفید غذا ’’ایمان ‘‘ اور بیماریوں سے علاج کیلئے نفع بخش دوا ’’ قرآن ‘‘ ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز ( قرآن پاک ) آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ( بیماریاں ) ہیں ان کیلئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کیلئے۔ ‘‘ ( یونس57)۔
تندرست دل کی علامت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی طرف کوچ کر جائے، یعنی آخرت کی فکر اس طرح کرے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی وہ آخرت والوں میں ہو اور اس دنیا میں گویا اپنی کوئی ضرورت پوری کرنے کیلئے عارضی طورپر مسافر کی طرح آیا ہو،جس طرح مسافر اپنی ضرورت پوری کرکے اپنے اصلی وطن لوٹ جاتا ہے۔ مسافر کبھی پردیس کو اپنا وطن نہیں سمجھتا اور پردیس کے عارضی قیام کے دوران وطن سے اس کا لگاؤ اورتعلق مضبوطی کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ یہی حیثیت دنیا اور آخرت کے درمیان انسان کی ہے کہ انسان کا اصلی وطن اور دائمی قرار کی جگہ تو آخرت ہی ہے جبکہ دنیا پردیس کی طرح ، عارضی قیام کی جگہ اور بہر حال دار فانی ہے۔ رسول کریم نے ایک مرتبہ حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’ دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم اجنبی ، مسافر ہو یا راہ گزر۔‘‘ ( ترمذی )۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان اس دنیا میں ( آخرت کے مقابلے میں ) راہ چلتا مسافر ہی ہے لیکن دل جب بیمار ہوتا ہے تو دنیا کو اس طرح ترجیح دیتا ہے کہ گویا دنیا اس کا اصلی وطن اور یہ یہاں کا اصلی باشندہ ہے ۔
صحت مند دل کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی ساری فکر اﷲتعالیٰ کی اطاعت میں مرتکز ہوتی ہے ، یعنی اسے یہ فکر ہوتی ہے کہ ہر کام اﷲتعالیٰ کی مرضی و منشا کے مطابق ہو ، کوئی کام اﷲ اور اس کے رسولکے حکم کے خلاف نہ ہو ۔اگر کبھی کوئی کام اطاعت و فرمانبرداری کے خلاف ہوجائے ، معمولی سی نافرمانی اور حکم عدولی ہوجائے یا کوئی ورد اور وظیفہ ( مثلاً ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہ کا معمول ) کبھی چھوٹ جائے تو اسے ایسی شدید تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی دنیا دار اور مال کے حریص ولالچی شخص کو مال کے ضائع اور چوری ہوجانے سے ہوتی ہے ۔
تندرست دل کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ وقت کے معاملے میں بڑا بخیل ہوتا ہے۔اس کی فکر یہ ہوتی ہے کہ وقت کا کوئی لمحہ بیکار اور ضائع نہ جائے جیساکہ اکثر لوگ مال کے معاملے میں بخیل ہوتے ہیں۔ یہ اپنا مال بچابچا کر رکھتے ہیں ، جہاں کوئی ذاتی فائدہ بلکہ بڑا فائدہ نہ ہو وہاں ایک پائی بھی خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے جبکہ قلب ِسلیم رکھنے والا شخص وقت کے معاملے میں اس بخیل سے زیادہ فکر مند ہوتا ہے کہ اس کا کوئی لمحہ بے کار و بے فیض نہ جائے ۔
تندرست دل کی علامت یہ ہے کہ نماز کے دوران اس سے دنیا کی ساری فکر اور غم چلاجائے اور نماز میں راحت و لذت ، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور محسوس ہو۔ اسی طرح وہ اپنے پروردگار کے ذکر سے اُکتاہٹ محسوس نہ کرے ، اسے عمل سے زیادہ عمل کو صحیح کرنے کی فکر ہوتی ہے ، یعنی تندرست دل اور قلب ِسلیم رکھنے والے شخص کو کسی عبادت کے انجام دینے سے زیادہ یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ عبادت صحیح طورپر انجام پائے چنانچہ وہ اخلاص ، حسن نیت اور سنت رسول کی متابعت کا حریص ہوتا ہے ۔الغرض دل ، اﷲتعالیٰ کی عظیم نعمت ہے ، اس کی صحیح کار کردگی پر انسانی زندگی کی بقا ہے۔روحانی اعتبار سے دل ، زندہ ، تندرست اور صحیح سالم ہو اور دینی ذمہ داری صحیح طورپر انجام دے تو ایسا دل رکھنے والا انسان آخرت میں کامیاب و کامران ہوگا ، اﷲتعالیٰ کی رضا و خوشنودی اسے حاصل ہوگی ، اس کے برخلاف دل مردہ یا بیمار ہوجائے اور انسان اس کی اصلاح و تربیت کی فکر نہ کرے تو آخرت میں ہلاکت و تباہی اس کا مقدر ہوگی لہٰذا ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف ظاہری اور جسمانی طورپر صحت قلب کی فکر پر اکتفا نہ کرے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی اپنے دل کی اصلاح اور اس کے تزکیہ کی فکر کرے جس پر کہ اُخروی کامیابی موقوف ہے ۔