ہمارے کھوکھلے اور دِکھاوے کے عشق کی بدولت پیغمبر اسلام کا دین آج اجنبی بن چکا ہے، یہ مسجد میں جاتا ہے تو اِسے سْنی ، شیعہ سے واسطہ پڑتا ہے
شکیل احمد ترابی۔ اسلام آباد
کسی بھی شخصیت کو سمجھنے میں اس کی وجاہت بہت بڑی مدد دیتی ہے۔آدمی کا سراپا ،اسکے بدن کی ساخت، اسکے اعضاء کا تناسبِ خاص، اس کے ذہنی اور اخلاقی اور جذباتی مرتبے کا آئینہ دار ہوتا ہے خصوصاً چہرہ ایک ایسا قرطاس ہوتا ہے جس پر انسانی کردار اور کارناموں کی ساری داستان لکھی ہوتی ہے اور اس پر ایک نظر ڈالتے ہی ہم کسی مقام کا تصور کر سکتے ہیں۔ہم بعد کے لوگوں کی یہ کوتاہی قسمت ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان کا روئے زیبا ہمارے سامنے نہیں اور نہ ہم عالمِ واقعہ میں سر کی آنکھوں سے زیارت کا شرف حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم حضورکے حسْن و جمال کی جو کچھ بھی جھلک پا سکتے ہیں ، وہ حضورکے پیغام اور کارنامے کے آئینے ہی میں پا سکتے ہیں۔ حضور کی کوئی حقیقی شبیہ یا تصویر موجود نہیں ۔ خود ہی حضورنے امت کو اس سے باز رکھا کیونکہ تصویر کا فتنہ شرک سے ورے ورے( قریب) نہ رک سکتا۔حضور کی اگر کوئی تصویر موجود ہوتی تو نہ جانے اس کے ساتھ کیا کیا کرامات اور اعجاز منسوب ہو جاتے اور اس کے اعزاز کیلئے کیسی رسمیں اور تقریبیں نمودار ہو چکی ہوتیں بلکہ بعید نہ تھا کہ اس کی پرستش ہونے لگتی (مْحسن انسانیت)۔
حضرت جابر بن سمرہؓ نے کہا:
’’ میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضور کو دیکھ رہا تھا ، آپ اِس وقت سْرخ جوڑا زیب تن کئے ہوئے تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپ کو ۔بالآخر میں اِس فیصلے پر پہنچا کہ حضور اکرم چاند سے کہیں زیادہ حسین ہیں۔ ‘‘
حضور نبی کریم کے رفقاء نے آپ کی شخصیت کو الفاظ کا جو پیرہن پہنایا ہے اْس کا کوئی نعم البدل نہیں مگر اْم معبْدؓ نے جو تصویر کشی کی وہ اپنی مثال آپ ہے:
’’ پاکیزہ رْو، کشادہ چہرہ،پسندیدہ خْو، نہ پیٹ باہر نکلا ہْوا ، نہ سر کے بال گرے ہوئے ، زیبا، صاحبِ جمال ، آنکھیں سیاہ رفراخ، بال لمبے اور گھنے ،آواز میں بھاری پن،بلند گردن، روشن مردمک،سرمگیں چشم،باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال،خاموش وقار کے ساتھ، گویادلبستگی لئے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ ودلفریب ،قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین ، شیریں کلام، واضح الفاظ،کلام کمی و بیشی الفاظ سے معرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پر وئی ہوئی ،میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی۔ زیبندہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں،جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا ہے تو تعمیل کیلئے جھپٹتے ہیں،مخدوم ،مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو۔‘‘
حضور اکرم سے اْمتیوں کے عِشق کی انتہا یہ کہ کوئی ہزاروں میل برہنہ پا پیدل چل کر روضۂ رسول پر حاضری دیتا ہے۔ ربیع الاول میں میلاد کی محافل سجتی ہیں۔ مسجدیں ، شاہراہیں ، گھر اور دیگر مقامات جھنڈیوں ، بجلی کی قمقموں ، بینرز سے سج جاتے ہیں ۔ہر ایک اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اِس عشق کا اظہار کرتا ہے مگر تاریخ میں سنہری حروف سے ذکر تو اْن عاشقانِ رسول کا ملتا ہے جنہوں نے آپ کے احکامات اور شریعت کے نفاذ کیلئے گھر بار چھوڑے اور دْنیا بھر میں پھیل گئے۔ حضور کے فِدایان کے مزار ہمیں دنیا بھر میں ملتے ہیں اور یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ آپ کے پیغام کو عام کرنے کیلئے دْنیا بھر میں پھیل گئے تھے۔ ا للہ تعالیٰ نے انبیاء ؑ کی بعثت کا اصل مقصد بیان کرتے ہوئے کہا :
’’ ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلائل دے کر جس مقصد کیلئے بھیجا ہے اور جس غرض کیلئے بھیجا ہے اور جس غرض کیلئے اِن پر کتابیں نازل کی ہیں اور اِن کو ضابطۂ حق کی میزان عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اِنصاف پر قائم ہو جائیں۔ ‘‘
آپ کی آمد کا مقصد الگ سے بیان کرتے ہوئے خالق کائنات نے فرمایا:
’’ وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول () کو ضابطۂ ہدایت اور دینِ حق دیکر اِس غرض سے بھیجا ہے کہ وہ اِسے دیگر تمام ادیان پر غالب کر دے ، اگرچہ مشرکین کو یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ ‘‘ ( الصف 9)۔
اِس دین کے غلبے کیلئے رسول اللہ نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔آپ نے ہجرت کی ، دندان مْبارک شہید ہوئے ، اپنے پیاروں کو قربان کیا، حضور کے چچا حضرت امیر حمزہؓ کا مُثلہ بنایا گیا ، کلیجہ چبایا گیا۔ حضور کو سب سے زیادہ رنجیدہ کرنے والی شہادت اپنے چچا کی تھی جن کو آپ نے سید الشہداء قرار دِیا۔ اپنے بارے میں حضور نے فرمایا :
’’ مشکل ترین دِن طائف کا تھا جب لونڈے پِل پڑے،اِس قدر زخم آئے کہ نعلین خون سے تر ہو گئیں۔‘‘
آپ کے فدائین کی قربانیوں سے متعلق کتابیں بھری پڑی ہیں مگر ایک صحابیہ ؓ کے نام سے بھی کم کم لوگ واقف ہیں جب اْحد کے معرکے میں آپ کی شہادت کی خبر عام ہو گئی تو وہ مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وار دوڑ رہی تھیں اور ہر ایک سے پوچھتیں کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے۔ اْ نہیں بتایا جاتا ہے کہ تمہارا باپ شہید ہو گیا، اِنا للہ پڑھتیں اور آگے بڑھ جاتیں، پھر پوچھتیں کِسی کو آمنہ کے لاڈلے کی خبر ہے ؟ بتایا جاتا کہ تمہارا خاوند شہید ہو گیا ، اِنا للہ پڑھتیں اور آگے کی طرف بھاگ نکلتیں ، پھر پوچھتیںکِسی کو محمد ِعربی سے متعلق کچھ معلوم ہے ؟ بتایا جاتا تمہارا بھائی شہید ہوگیا ، اِنا للہ پڑھتیں اور دوڑتی بھاگتیں ، انسانی صفیں چیرتی پھاڑتیںپھر پوچھتی ہیں: کِسی کو رسول اللہ کا کچھ اَتا پتا ہے ؟ بتایا جاتا کہ تمہارا بیٹا شہید ہو گیا مگر اللہ کے پیغمبر محفوظ ہیں، اِنا للہ پڑھ کر آپ ؓ فرماتی ہیں:
’’ آپ حیات ہیں تو باپ ، خاوند ، بھائی اور بیٹے کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں۔‘‘
اے عاشقانِ رسول ! مجھے اور آپ سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں چند لمحوں کیلئے جھانکنا چاہیے۔ ایک عشق تو وہ تھا اور ایک عشق یہ ہے کہ گلیاں بازار سجا کر ہم تمام فرائض سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اْن کے عشق کی بدولت اسلام نے دْنیا بھر میں غلبہ حاصل کیا اور ہمارے عشق کے نتائج کیا بتانے کی ضرورت ہے ؟
جی ہاں ہمارے کھوکھلے اور دِکھاوے کے عشق کی بدولت پیغمبر اسلام کا دین آج اجنبی بن چکا ہے۔ یہ مسجد میں جاتا ہے تو اِسے سْنی ، شیعہ اور وہابی سے واسطہ پڑتا ہے۔ بیرکوں میں اس کا داخلہ ممنوع ہے ۔ وطنِ عزیز کے ایوان ہائے اقتدار میں شریعت محمدی نہیں ، حکمرانوں کی شریعت نافذ ہے۔ وہاں سے صرف سال میں ایک بیان آپ سے متعلق جاری ہو جانا ہی عشق رسول کی کل معراج ہے۔ تعلیمی اداروں میں لارڈ میکالے کا نظام ہے۔ آپ کی تعلیمات متروک کر دِی گئی ہیں۔ عدالت میں آپ کی شریعت نظر آتی ہے ؟ ہرگز نہیں۔ شریعت موجود ہوتی تو کیا آئے روز بااختیار جس طرح بچ نکلتے ہیں ، ایسے ہوتا۔ ذرائع ابلاغ میں آپ کی شریعت کا نفاذ ہے ؟ جھوٹ یا بے حیائی کا راج ۔
دْنیا کا ہر چوتھا اِنسان مسلمان اور محمد عربی کا دین اجنبی ، اے عاشقانِ رسول ! رْک جاؤ ، غور کرو جن کے عشق میں ہم بظاہر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں وہ کیا فرما گئے تھے:
’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اْس کی خواہش اْس کے مطابق نہ ہو جائے جو میں لایا ہوں ۔‘‘
آپ سے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ جس نے اطاعت کی رسول ( ) کی گویا اْس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ ( النِساء 80)۔
دوسری جگہ فرمایا:
’’ اور وہ اپنے نفس کی خواہش سے کچھ نہیں بولتے سوائے اِس کے جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ ‘‘( النجم 4,3)۔
اے فِدایان رسول ! اللہ رب العزت نے کہا :
{ وَرَِفعنالک ذِکرک}۔
’’ اور ہم نے آپ ( )کے ذِکر کا آوازہ بلند کر دیا۔ ‘‘ ( النشرح4 )۔
یہ آوازہ تو بلند رہے گا مگر جِن کے اعمال کی بناء پر اِنسانِ کامل کا دین آج مغلوب ہے ، ذرا سوچئے کیا ہم آبِ کوثر سے سیراب ہو سکیں گے ؟۔