***اے وحید مراد***
پاکستان میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فرخ عرفان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔
جسٹس فرخ عرفان کا نام پانامہ میں آف شور کمپنیاں بنانے والے افراد میں آیا تھا۔
فرخ عرفان 20 فروری 2010 کو بطور ایڈیشنل جج لاہور ہائی کورٹ تعینات ہوئے جنھیں بعد میں مستقل جج مقرر کر دیا گیا۔ وہ نو سال سے زائد عرصے تک ہائی کورٹ کے جج رہے۔
جسٹس فرخ عرفان کے خلاف ریفرنس اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب کرنے والے فورم سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی زیر سماعت ہے۔
جسٹس فرخ عرفان نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ وہ سخت مایوسی اور غصے کی کیفیت میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں ۔
انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ ’مجھے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں کام کرنے سے زبردستی روکا گیا اور میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاؤں۔‘
آٹھ صفحات پر مشتمل اپنے استعفے میں انہوں نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کا بھی حوالہ دیا۔
انہوں نے لکھا کہ ‘کونسل میں ان کے خلاف شکایت ایک بے بنیاد اور یکطرفہ معلومات کی بیناد پر دائر کی گئی۔ ‘
انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اپنے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کے طریقہ کار اور انکوائری پر بھی سولات اٹھا دیے۔
جسٹس عرفان نے لکھا کہ یہ افسوسناک ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کے خلاف ریفرنس اپنی باری پر سماعت کے لیے مقرر نہیں کی۔
ان کے مطابق ان کے خلاف شکایت سے پہلے کئی ججز اور سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ ممبران کے خلاف ریفرنسز پہلے سے زیر التوا ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ میرے خلاف ریفرنس کی سماعت سے پہلے ان ریفرنسز کی سماعت ہونی چاہیے تھی۔
جسٹس عرفان نے اپنے استعفے میں لکھا کہ بطور جج اپنے 9 سالہ کیرئیر کے دوران انہوں نے 29 ہزار کیسز کا فیصلہ بلا کسی خوف اور لالچ کے کیا۔