*** وسعت اللہ خان ***
میری نسل بس کتابی میلوں سے واقف تھی جہاں دس سے 25 فیصد رعایت پر کتاب ملنے کا لالچ ہمیں کھینچ لے جاتا تھا۔ کبھی ایسی کتاب بھی دل و دماغ کو لڑ جاتی کہ یہ خواہش انگڑائی لینے لگتی کاش کبھی زندگی میں اس کے مصنف سے ملاقات ہوجائے تو پوچھیں بھائی ایسے کیسے لکھ لیتے ہو؟
چند برس پہلے کسی اخبار کے اندرونی صفحے پر کونے میں چھپی یہ خبر نظر سے گزری کہ راجستھان کے دارلحکومت جے پور میں لٹریچر فیسٹیول ہو رہا ہے جس میں عالمی شہرت یافتہ بدیسی لکھاری بھی آ رہے ہیں۔ اک ہوک سی اٹھی یہ سوچ کر کہ کیا دہشت گردی کا شکار پاکستان میں بھی ایسا کوئی میلہ ممکن ہے جہاں لوگ اپنے پسندیدہ مصنفوں سے مل سکیں، سن سکیں اور چلتے پھرتے ایک آدھ اچھی کتاب بھی خرید لیں۔
پھر سنہ 2010 میں خبر آئی کہ کراچی کے کسی کارلٹن ہوٹل میں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے کراچی لٹریری فیسٹیول (کے ایل ایف) کا اہتمام کیا ہے۔ سنا کہ اس میں کوئی چار پانچ ہزار لوگ شریک ہوئے۔ اتفاقاً میں اس زمانے میں کراچی میں نہیں تھا۔ مگر چونکہ ذات کا صحافی ہوں اس لیے دل میں پہلا خیال برا ہی آیا ’دیکھنا اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو ہمارے دوست حسن زیدی کے کراچی فلم فیسٹیول (کارا) کا ہوا۔ بڑے جوش میں شروع ہوا تھا۔جب ہر سال ہونے لگا تو لگا کہ سروائیو کر گیا ہے مگر چند فیسٹیولز کے بعد سپانسرز ہانپ گئے اور کارا پارہ پارہ ہوگیا۔ دیکھنا یہی حشر کراچی لٹریچر فیسٹیول کا بھی ہوگا۔‘
مگر پھر ہوا یوں کہ کے ایل ایف ہوتا ہی چلا گیا اور دس کا ہندسہ بھی پار کر گیا۔ کہاں شرکا پہلے میلے میں پانچ ہزار سے شروع ہوئے کہاں دسویں میں ڈیڑھ لاکھ پار کر گئے۔ سنہ 2011 سے آکسفرڈ والوں نے چلڈرن فیسٹیول کی سالانہ بدعت اور سنہ 2013 سے اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول ( آئی ایل ایف ) شروع کردیا۔ پھر جیسا کہ ہوتا ہے کہ جب کوئی روایت تن آور درخت بن جاتی ہے تو اس سے نئی شاخیں پھوٹتی ہیں۔ کے ایل ایف کے بطن سے ادب فیسٹیول نے جنم لیا۔ کیسے جنم لیا ؟ یہ کہانی پھر سہی۔
سنہ 2013 میں لاہور میں رضی احمد نے لاہور لٹریری فیسٹول (ایل ایل ایف) منعقد کیا۔ سرکار نے بھی کچھ فراخ دلی کی اور اب یہ شہر کے تہذیبی کیلنڈر کا سالانہ ایونٹ بن چکا ہے۔
گویا پچھلے 11 برس میں کراچی لٹریری فیسٹیول سے جو نئی علمی و ادبی روایت شروع ہوئی اس نے جانے کہاں کہاں تک جڑیں بنا لی ہیں۔ گذشتہ پانچ برس سے کچھ مقامی خوشحال جنونی خواتین کا ایک گروہ فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کروا رہا ہے۔ اس میں زیادہ زور انگریزی کے بجائے اردو اور علاقائی لکھاریوں اور ادب کی حوصلہ افزائی پر ہے۔
بلوچستان سے میڈیا اچھی خبریں بہت کم اٹھاتا ہے مگر گوادر کے نوجوانوں نے مسلسل پانچ برس سے گوادر بک فیسٹیول کی روایت برقرار رکھتے ہوئے نام نہاد قومی میڈیا کو اپنی بے ساختہ کوریج پر مجبور کردیا۔ میں نے اب تک کتاب کی جتنی بھوک گوادر بک فیسٹیول میں دیکھی شاید ہی کسی اور لٹریری میلے میں نظر آئی ہو۔ حالانکہ گوادریوں کی جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے جتنے بڑے شہروں کے کتابی کیڑوں کے کھیسے میں پائے جاتے ہیں۔
سندھ میں کے ایل ایف کی دیکھا دیکھی دیگر علم دوستوں نے بھی لٹریری فیسٹیولز منعقد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ پچھلے چار برس سے حیدرآباد میں گلوکار سیف سمیجو، ثنا خوجہ اور بیسیوں نوجوان رضا کار لاہوتی میوزک اینڈ لٹریچر فیسٹیول کا علم بلند کیے ہوئے ہیں ( میوزک اور لٹریچر ایک ساتھ ! وٹ این آئیڈیا سر جی )۔
کراچی میں تین برس سے سندھ لٹریری فیسٹیول کامیابی سے ہو رہا ہے۔اورتو اور ٹنڈو آدم میں سانگھڑ لٹریچر فیسٹیول بھی مقامی لوگوں نے منظم کر ہی لیا۔ سرگودھا میں بھی یہ روایت شروع ہو گئی ہے اور جہلم والے بھی تیاری پکڑ رہے ہیں۔ کوئٹہ کی بلوچستان یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی نے بھی گذشتہ برس سے ادبی میلے کی روایت اختیار کر لی ہے۔
ان تمام علمی سرگرمیوں کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ منتظمین نے سرکار پر مکمل تکیہ کرنے کے بجائے اپنے سپانسرز خود پیدا کیے ہیں۔ لہذا ان میلوں میں لمبی زندگی پانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اب تو ان فیسٹیولز پر تنقید بھی ہونے لگی ہے جیسے کے ایل ایف ، آئی ایل ایف اور ایل ایل ایف پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہیں اشرافیہ کے علمی ذوق کے اعتبار سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اردو اور علاقائی ادب و لکھاریوں کے بجائے مغربی و دیگر بدیسی مصنفوں کو زیادہ جگہ ملتی ہے۔ اکثر اجلاسوں کی زبان انگریزی ہوتی ہے۔ فوڈ سٹالز پر کتابوں کے سٹالز سےزیادہ رش ہوتا ہے۔ایسے ایسے فیشن نظر آتے ہیں گویا کتابوں کا میلہ نہیں ڈربی ریس ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
پر ایسی تنقید کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب بڑے میلوں میں اردو اورعلاقائی زبانوں کی نمائندگی سال بہ سال بڑھ رہی ہے۔ جوں جوں صارف کا اصرار بڑھتا جائے گا توں توں ان میلوں کی شکل بھی بدلتی چلی جائے گی۔ سارا کھیل ڈیمانڈ اور سپلائی کا ہے۔ مجھے تو یہ میلے طبقاتی دکھائی نہیں دیتے۔ مثلاً کے ایل ایف سمیت کراچی کے ادبی میلوں میں اب ہر سال ایسے نوجوانوں سے پہلے سے زیادہ ملاقات ہو رہی ہے جو اندرونِ سندھ سے بسوں میں بیٹھ کر کراچی صرف اس میلے میں مصنفین کو سننے اور کتابوں سے ملنے آتے ہیں۔
اور جو مطمئن نہیں ہے وہ اپنے زوق کے اعتبار سے میلہ منعقد کروالے۔ جیسے سندھ لٹریچر فیسٹیول نے سندھ کی تاریخ اور ادب پر گفتگو کی کمی کو پورا کیا۔ لاہوتی میلے نے میوزک کے متلاشیوں کے لیے کتاب اور گٹار کا ایک ساتھ انتظام کردیا۔ اصل بات یہ ہے کہ روایت مسلسل پھیلنی چاہیے۔ کسی شعلہ بار اجتماع میں شرکت کر کے اپنا خون ابالنے سے کہیں بہتر ہے کہ دو تین دن کے ان میلوں میں ہر رنگ و نسل و طبقے کے درمیان ٹھنڈے ٹھنڈے وقت گذار دیا جائے۔
اس سماج کو کلاشنکوف سے زیادہ ملاقات، مکالمے اور کتاب کی ضرورت ہے۔ایسے چوروں کی ضرورت ہے جو جیکٹ میں چوری چھپے بارود بھر کے لانے کے بجائے کتابیں بھر کے اڑ جائیں۔