ماڈل کورٹس سمجھوتہ: انصاف کی جیت ہوئی یا وکلاء کی؟
جمعرات 25 اپریل 2019 3:00
اعظم خان، اسلام آباد
ماڈل کورٹس کے قیام سے امید پیدا ہوئی تھی کہ لوگوں کو جلد انصاف ملے گا،لیکن چند ہفتوں کے اندر ہی ماڈل کورٹس کا ماڈل بدل دیا گیاہے یعنی عام عدالتوں کی طرح ماڈل کورٹس میں بھی مقدمات التوا کا شکار ہوں گے۔
یاد رہے کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے اس ماہ کے آغاز سے تجرباتی بنیادوں پر ملک میں ایسے عدالتی نظام کو متعارف کروا یا تھا جس سے دیرینہ مقدمات میں الجھے سائلین کی انصاف تک جلد رسائی ممکن ہو سکتی تھی۔تاہم وکلاء نے اس نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور چیف جسٹس کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ اور وکلاء کے وفد کے درمیان حالیہ ہفتے ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں وکلاء کے اہم مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ کی سربراہی میں وکلاء کے ایک وفد نے چیف جسٹس آصف کھوسہ کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات کی ہے۔
امجد شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ماڈل کورٹس پر وکلاء کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں اور وکلاء نے چیف جسٹس کے خلاف احتجاج کی کال واپس لے لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے ماڈل کورٹس میں مقدمات ڈیڈلائن میں نمٹانے کی شرط ختم کردی ہے۔ اب کوئی بھی مقدمہ اپنے میرٹ کے حساب سے سنا جا سکتا ہے۔
لیکن اب ان عدالتوں میں بھی عام عدالتوں کی طرح ہی کسی بھی مقدمے کی سماعت کے دوران متعلقہ اداروں کی تفتیش، گواہان کی پیشی، ملزمان کی حاضری،وکلا اور ججوں کی دستیابی بڑے چیلنجز ہونگے جو فوری انصاف کے راستے میں بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔
سائلین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ماڈل کورٹس کے قیام کو سراہا تھااوروکلا کے احتجاج کو مفاد پرستی قرار دیا تھا۔ تاہم وکلا تنظیمیں بضد تھیں کہ یہ نظام نہیں چلنے دیا جائے گا کیونکہ ماڈل کورٹس انصاف فراہم نہیں کر رہی ہیں بلکہ مقدمات کو بس جلد از جلد نمٹا رہی ہیں۔
کیا یہ اب بھی ماڈل کورٹس ہیں؟
امجد شاہ کہتے ہیں کہ اب بھی ماڈل کورٹس کا یہ فائدہ ہوگا کہ پولیس ترجیحی بنیاد پر تفتیشی رپورٹ پیش کرے گی۔ وہ اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں وکلاء کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے، لیکن اس کا ذمہ دار وہ ججز کو بھی سمجھتے ہیں جو مقدمات کی سماعت کے دوران اچانک چھٹی پر چلے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ماڈل کورٹس کے لیے زیرالتوا مقدمے کا فیصلہ صرف چار دن میں سنایا جانا ضروری تھا۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں 116عدالتیں قائم کی گئیں ہیں۔ امجد شاہ کا کہنا ہے کہ ’وکلاء ان ماڈل کورٹس میں غیر ضروری تیزی کے خلاف تھے، اب وکلاء کو کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اگر تمام عدالتوں کو ہی ماڈل کورٹس بنادیا جائے۔‘
وکلا ء کا جو دوسرا مطالبہ مانا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی تھانے کا ایس ایچ او کسی مقدمے کی ایف آئی آر درج نہیں کرتا تو اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل عدالت سے رجوع کرنے سے قبل پولیس سپریٹینڈنٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری تھا۔
یہ عدالتیں کیسے کام کرتی ہیں؟
ان عدالتوں میں ججوں کا تقرر متعلقہ ہائی کورٹ کرتی ہے اور یہ جج تین سال تک فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ ان عدالتوں کے لیے مقدمات کا تعین بھی ہائی کورٹ ہی کرتی ہے۔ امجد شاہ کے مطابق ہر ضلع میں جو مقدمات پرانے سمجھے جاتے ہیں وہ ان عدالتوں کو ریفر کردیے جاتے ہیں۔ البتہ اگر کسی فریق کو فیصلہ پسند نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں ماڈل کورٹس کے فیصلوں کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
وکلاء کی جیت ہوئی ہے؟
ماڈل کورٹس کے قیام کے ساتھ ہی وکلاء نے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ مسئلے کے حل کے لیے چیف جسٹس نے 29 اپریل کو فیصلے پر نظرثانی کے لیے جوڈیشل کمیٹی کا اجلاس طلب کررکھاہے۔
وکلاء نے اس اجلاس سے قبل ہی چیف جسٹس سے ملاقات کی اور اس کے بعد اپنے مطالبات تسلیم ہونے سے متعلق پریس ریلیز بھی جاری کردی ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے امجد شاہ نے کہا کہ اب یہ قید بھی ضروری نہیں ہے کہ کوئی مقدمہ تین ماہ میں ہی نمٹایا جاسکے گا۔ یہ مقدمے کی نوعیت پر منحصر ہوگا کہ فیصلے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ ’یہ عرصہ چھ ماہ اور اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں امجد شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے ملاقات میں وکلاء سے یہ شکوہ کیا ہے کہ جب انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرلیا جائے گا تو پھر احتجاج کی کال واپس کیوں نہیں لی گئی؟
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کا کہنا تھا کہ’ہم نے چیف جسٹس کو احترام سے یہ کہا کہ اگر آپ ایک ہفتے کے اندر اعلان کردیتے تو پھر احتجاج کی کال کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔‘ امجد شاہ کے مطابق یہ ایک ایسا تنازعہ تھا جس طرح گھر میں کچھ امور پر اختلاف ہوجاتا ہے، لیکن پھر گلے شکووں کے بعد اس کا کوئی حل تلاش کرلیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس بڑے انسان ہیں، اس مسئلے پر انہوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔‘