روایت ہے کہ حرم مکی کی سب سے پہلی حد بندی فتح مکہ کے بعد کی گئی تھی
کہا جاتا ہے کہ حرم مکی کا حدود اربعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہے اور حرم کے چاروں طرف اس کی حدیں متعین کرنے والی علامتیں نصب ہیں۔ قدیم زمانے سے نصب علامتوں کی تجدید مختلف اوقات میں ہوتی رہی ہے۔
حرم مکی کے حدود کو متعین کرنے والی علامتوں میں بغض نئی اور دیگر پرانی ہیں۔ پرانی علامتیں مخصوص پتھروں پر مشتمل تھیں۔
حرم مکی کے حدود اربعہ اور اس کی تاریخ کے حوالے سے مکہ مکرمہ ہسٹوریکل سینٹر کے ڈائریکٹر جنرل اور ام القریٰ یونیورسٹی میں جزیرہ عرب اور مکہ مکرمہ کی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر فواز علی الدہاس کہتے ہیں کہ 'مکہ مکرمہ کے مورخین کہتے ہیں کہ حرم مکی کی حدیں حضرت آدم کے زمانے سے مقرر ہیں۔ وہ پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔‘
خیال رہے کہ مکہ کے اطراف میں واقع پہاڑوں پر 11 سو چارعلامتیں حرم مکی کی حد بندی کے لیے نصب ہیں۔
پروفیسر الدہاس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سعود الثبیتی اور ڈاکٹر خضران الثبیتی نے حرم مکی کی حدود اور ستونوں سے متعلق مفصل تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب معتبر حقائق کا مجموعہ ہے۔
حرم مکی کی علامتوں کی تجدید
حرم مکی کی علامتوں کی تجدید مختلف اوقات میں کی جاتی رہی۔ پیغمبر اسلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے صحابی تمیم بن اسد الخزاعی کے ذریعے فتح مکہ کے موقعے پر یہ مہم انجام دی پھر خلفائے راشدین، بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفا اور مسلم سلاطین یہ کام وقتاً فوقتاً انجام دیتے رہے۔ عصر حاضر میں یہ کام سعودی ریاست نے انتہائی معتبر اور مضبوط شکل میں انجام دیا ہے۔
ڈاکٹر الدہاس کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کرۂ ارض کے مرکز میں واقع ہے۔ وادی ابراہیم مکہ کے شمال سے جنوب کی طرف چلی گئی ہے۔ یہ مکہ شہر کو دو حصوں میں منقسم کیے ہوئے ہے۔
اس کے مشرق و مغرب میں پہاڑ ہیں جبکہ مکہ شمال سے جنوب کی طرف بیضوی شکل کا ہے۔
پہاڑوں کی چوٹیوں پر علامتیں
مکہ کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر 11 سو چار علامتیں حرم کی حد بندی کرتی ہیں۔ الشرائع سے لیکر التنعیم تک مکہ کے شمالی پہاڑوں پر ساڑھے چھ سو ستون نصب ہیں۔ یہ کام سعودی ریاست میں انتہائی احتیاط کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔
حرم کی حد بندی کے لیے ایک کمیٹی 20 برس قبل تشکیل دی گئی تھی۔ اس میں شیخ سعود الثبیتی بھی شامل تھے۔ پہاڑوں کی چوٹی پر حرم مکی کی حد متعین کرنے والا ستون نصب کرنا اپنے آپ میں ایک معجزاتی عمل ہے۔
ہر ستون حرم مکی کی حد اجاگر کرنے والا نشان ہے۔ ایک ستون دوسرے ستون سے چند میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تمام ستون یکساں مسافت پر نصب نہیں کیے گئے۔ ہر ستون کے پوائنٹ کو 'تقسیم آب' کا پوائنٹ کہا جاتا ہے۔
ان پوائنٹس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر یہاں آپ پہاڑ پر پانی ڈالیں گے تو وہ اس کے دائیں یا بائیں کسی ایک جہت میں بہنے لگے گا۔ اگر پانی علامت کے بائیں جانب بہہ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حصہ حرم شریف میں شامل ہے اور اگر دائیں جانب بہہ رہا ہے تو وہ حصہ ’حل‘ کا ہے وہ حرم کا حصہ نہیں ہے۔
حل ایسی جگہ کو کہتے ہیں جو حرم اور میقات کے درمیان واقع ہوتی ہے۔
یلملم روڈ کی جانب سے مکہ کے جنوب میں حد بندی کرنے والے 299 ستون نصب ہیں۔ التنعیم سے الشمیسی (الحدیبیہ) تک مغربی جانب 38 اور الشرائع کی جانب مشرق میں 117 ستون نصب ہیں۔
قدیم جدہ روڈ پر نئے ستون
بانی مملکت شاہ عبدالعزیز کے عہد میں قدیم جدہ روڈ پر دو نئے ستون حرم مکی کی حد بندی کے طور پر نصب کیے گئے۔ پھر 1376 ہجری میں شاہ سعود کے زمانے میں الطائف السیل روڈ پر دو نئے ستونوں کا اضافہ کیا گیا۔
شاہ خالد کے عہد میں چار نئے ستون نصب کئے گئے۔ ان میں سے دو عرفہ الھدا کی طرف سے طائف روڈ پر اور دو قدیم جدہ روڈ پر لگائے گئے۔
1404 ہجری کے دوران شاہ فہد کے عہد میں التنعیم روڈ پر دو نئے ستون نصب کیے گئے۔ اسی طرح 1423ھ میں مکہ مکرمہ کے باہر شہر میں داخلہ گاہوں پر مزید 14 ستون نصب کیے گئے۔
ان میں سے دو التنعیم کی طرف مدینہ روڈ، دو مکہ جدہ شاہراہ، دو اللیث کی طرف مکہ میں داخلے کی جگہ پر، دو قدیم یمن روڈ، دو الحسینیہ العوالی روڈ، دو طائف الھدا روڈ جبکہ دو طائف مکہ السیل شاہراہ پر نصب کیے گئے ہیں۔
یہ سب ایک دوسرے کے بالمقابل واقع ہیں۔ دوسری طرف جدہ شاہراہ پر حرم مکی کی حدود متعین کرنے والے ستون دائرے کی شکل میں لگائے گئے ہیں۔