Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کا مشرق وسطی میں مزید 15 سو فوجی بھیجنے کا فیصلہ

مزید فوج بھیجنے کا فیصلہ خطے میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے ردعمل میں کیاگیا ہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ  حالیہ کشیدگی کے بعد مشرق وسطٰی میں مزید 15 سو فوجی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد خطے  میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپان کے دورے سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ ’ہم کم تعداد میں فوجی وہاں بھیجنے جا رہے ہیں، حفاظتی دستے میں شامل فوجیوں کی تعداد 15 سو ہوگی۔‘

‘ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ تصویر یو ایس نیوی
‘ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ تصویر امریکن نیوی

دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستان سے ایران واپسی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کا مشرق وسطی میں 15 سو اضافی فوجی بھیجنے کا فیصلہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ  ملاقات کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے خطے میں کشیدگی بڑھنے کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کو رات گئے وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق عمران خان نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ انہیں ’خلیج میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ہے، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘
وزیراعظم پاکستان کے مطابق ’خطے کی صورتحال پہلے ہی خراب ہے اور اسے مزید ابتر کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال میں تمام فریقین کو آخری حد تک برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔‘
انہوں نے کہا ہے کہ 'ہمارے خطے میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی بہت خطرناک ہے، اس کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔
مشرق وسطٰی بھیجے جانے والے دستے میں ایئرکرافٹ، جنگی طیارے، انجینیئرز اور پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس بٹالین کی توسیع شامل ہے جس کے عملے کی موجودہ تعداد چھ سو کے قریب ہے۔
امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شاناہن کا کہنا ہے کہ یہ ایران کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کا بھرپور جواب ہے۔
پینٹاگون حکام نے کہا ہے کہ مزید 15 سو فوجیوں کو بھیجنے کا فیصلہ خطے میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے ردعمل میں کیا گیا ہے جن کا تعلق امریکی انٹیلی جنس کے مطابق ایرانی قیادت سے ہے۔
ان واقعات میں بغداد کے گرین زون پر راکٹ حملہ، فجیرہ میں دھماکہ خیز مواد سے چار ٹینکروں کا متاثر ہونا اور حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی آئل تنصیبات پر ڈرون حملہ شامل ہے۔
تاہم ایران نے ان حملوں میں کسی سطح پر ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی اور حملوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے واقعات خطرناک اور قابل مذمت ہیں۔

فجیرہ میں دھماکہ خیز مواد سے 4 آئل ٹینکرز متاثر ہوئے تھے۔(تصویر: اے ایف پی)
فجیرہ میں دھماکہ خیز مواد سے 4 آئل ٹینکرز متاثر ہوئے تھے۔(تصویر: اے ایف پی)

ڈائریکٹر پینٹاگون جوائنٹ سٹاف ریئر ایڈمرل مائیکل گلڈے کا کہنا ہے کہ ’ہم اسے ایک مہم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ 
گلڈے نے واضح کیا کہ خطے میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ، ایئرکرافٹ کیرئر ٹاسک فورس، بی 52 بمبار طیاروں اور چھوٹے جنگی جہازوں کی رواں ماہ کے اوائل میں تعیناتی اپنے دفاع اور ایران کو دھمکیوں کا واضح جواب دینے کے لیے ہیں۔‘
’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات سے ہم ایک بار پھر ایران کے ساتھ جنگ کے امکانات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر لگنے والی اقتصادی پابندیوں کے باعث امریکہ اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس معلومات کے مطابق ایران خطے میں کسی قسم کے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

شیئر: