ایک سعودی خاتون نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنا نکاح نامہ شیئر کر دیا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر زبردست بحث چھڑ گئی ہے۔ اس بحث کا محرک نکاح نامے میں درج چھ شرائط ہیں۔
سعودی عرب کی عدالتوں میں نکاح پڑھنے سے پہلے قاضی کا ایک روایتی سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کی طرف سے کیا شرائط ہیں۔ اگر کوئی شرائط ہوں تو قاضی انہیں نکاح نامہ میں موجود شرائط کے حصے میں باقاعدہ تحریر کرتا ہے۔
مذکورہ خاتون نے جو شرائط عائد کی تھیں وہ اس طرح ہیں: گھر کے کام کاج کے لیے خادمہ ہوگی، ریاض میں زوجین کے لیے الگ مکان ہوگا، اپنے کسی قول وعمل سے بیوی کو اذیت نہیں دے گا، کسی دوسری خاتون سے ہرگز شادی نہیں کرے گا، ناچاقی کی صورت میں طلاق ہوگئی تو بیوی کو پانچ لاکھ ریال ادا کرے گا اور بیوی کے تمام قانونی اور شرعی حقوق ادا کرے گا۔
یہ وہ چھ شرائط ہیں جو نکاح نامے میں باقاعدہ لکھوائی گئیں اور جس کا عکس ٹوئٹر پر مذکورہ خاتون نے شیئر کیا۔
ٹوئٹر صارفین کے درمیان اس پر بحث شروع ہوگئی کہ آیا یہ رویہ درست ہے یا اس کی وجہ سے سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
بیشتر صارفین کا موقف تھا کہ سعودی لڑکیوں کی طرف سے اس طرح کی مشکل اور عاجز کرنے والی شرطوں کی وجہ سے مملکت میں غیر شادی شدہ جوڑوں کے علاوہ ایسی لڑکیوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جن کی عمریں ڈھلتی جا رہی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح کے رویہ کی مذمت کرنی چاہیے کہ اس سے نکاح جیسا مقدس رشتہ اپنی اصل روح سے ہٹ کر مفادات کے حصول کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
خاتون کے شرائط کے حامیوں نے جو زیادہ ترخواتین ہیں، کا کہنا ہے کہ لڑکی کو قانونی اور شرعی طور پر حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے جو چاہے شرط عائد کرے۔
ٹوئٹر صارف محمد الشمری نے لکھا کہ ’میری خواہش ہے کہ میں اپنی ہم وطن لڑکی سے شادی کروں مگر عاجز کرنے والی شرائط کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ شاید کسی غیر ملکی سے شادی کرنا کئی گنا بہتر ہے۔ کم سے کم اس کی شرطیں تو نہیں ہوں گی۔ اور سعودی لڑکیوں والے نخرے تو نہیں کرے گی۔‘
یاسمین کا موقف مختلف تھا، انہوں نے کہا ’مذکورہ لڑکی نے کچھ مبالغے سے کام لیا ہے مگر دیکھا جائے تو ناچاقی کی صورت میں عورت نقصان میں رہتی ہے۔ ایک دو بچے پیدا کرنے کے بعد کسی بھی وجہ سے میاں طلاق دے دے تو عورت کیا کرے گی، اس کی زندگی تو تباہ ہوگئی۔ دو بچوں کی ماں سے کون نکاح کرے گا جبکہ میاں مزے سے دوسری شادی کرلے گا۔‘