Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈ کپ میں وقار یونس کی بدقسمتی

سنہ 1992 کے ورلڈ کپ سے پہلے ہر سُو وقار یونس کی بولنگ کے چرچے تھے۔ وسیم اکرم اور ان کی جوڑی نے بیٹسمینوں پر اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی، اس لیے سب کی نظریں ورلڈ کپ پر تھیں کہ دیکھیں ’ٹو ڈبلیوز‘ اس ٹورنامنٹ میں کیا قیامت ڈھاتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا پہنچی تو چند دن بعد یہ خبر آئی کہ کمر میں تکلیف کے باعث وقار یونس وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔  سٹار فاسٹ بولر جس سے  بڑی توقعات وابستہ ہوں، اس کا ان فٹ ہونا ٹیم کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ وقار یونس کے لیے بھی صورت حال پریشان کن  تھی لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔
 پاکستان ٹیم عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیت گئی جس کی بطور پاکستانی وقار یونس کو یقیناً خوشی ہوئی  لیکن وننگ ٹیم کا حصہ نہ ہونے پر رنج بھی بہت ہوا۔ 

وقار یونس نے 1999 کے عالمی کپ کا صرف ایک میچ کھیلا 

سنہ 1996 میں پاکستان، انڈیا اور سری لنکا نے ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔ انڈیا کے خلاف بنگلور میں کوارٹر فائنل، وقار یونس کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ اجے جدیجہ نے ان کے آخری دو اوورز میں  بالترتیب 18اور 22 رنز بنائے۔ اس جارحانہ  اننگز نے انڈیا کی جیت میں اہم کردار ادا کیا لیکن وقار یونس کے لیے یہ تلخ یاد بن کر رہ گئی۔ وقار یونس سے ایک ٹی وی انٹرویو میں مذکورہ اننگز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ جدیجہ کو ایک معمولی بیٹسمین ہی گردانتے ہیں، بس یہ ہے کہ وہ دن اس کا تھا۔ 
سنہ 1999 کا ورلڈ کپ انگلینڈ میں ہوا۔ اس سرزمین کو کرکٹ کے اعتبار سے وقار یونس کا دوسرا گھر قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں ٹیسٹ میچوں میں انہوں نے ہمیشہ عمدہ کارکردگی دکھائی، دوسرا وہ کئی برسوں سے کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیل رہے تھے، اس لیے وہاں کی کنڈیشنز سے بھی اچھی طرف واقف تھے۔ اس زمانے میں ایک طرف ان کے کپتان وسیم اکرم سے تعلقات کشیدہ تھے تو دوسری جانب  شعیب اختر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، سکواڈ میں شامل ہونے کے باوجود ان کی جگہ نہیں بن پا رہی تھی۔ ورلڈ کپ میں وہ صرف بنگلہ دیش کے خلاف میچ کھیل سکے، جس میں پاکستان کی غیر متوقع ہار نے سب کو حیران کیا اور ٹیم پر میچ فکسنگ کے الزامات بھی لگے۔

وقار یونس نے 2003 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں ٹیم کی قیادت کی

 اس ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے کوچ مشتاق محمد نے اپنی آپ بیتی ’انسائیڈ آؤٹ‘ میں لکھا ہے کہ ٹیم  سے ڈراپ ہونے کے باوجود وقار یونس کا طرز عمل مثبت اور رویے میں تلخی بالکل نہیں تھی، لیکن ایک روز آخر انہوں نے کوچ کو بولنگ میں اپنے کارنامے گنوائے (جو اپنی جگہ سب درست تھے)  اور پوچھا کہ اس کے باوجود وہ ٹیم سے باہر کیوں ہیں؟ اس پر مشتاق محمد نے کہا کہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ وہ (وقار یونس) خود اپنی مرضی سے میچ کے لیے گیارہ کھلاڑی چنیں جس پر وقار یونس نے کاغذ قلم پکڑا اور کھلاڑیوں کے نام لکھنا شروع کیے۔ وقار یونس نے جو ٹیم بنائی اس میں ان کا نام نہیں تھا، انہوں نے دیانت داری سے تسلیم کرلیا کہ واقعی ٹیم میں ان کی جگہ نہیں بنتی۔ 
وقت وقت کی بات ہے، وہ وقار یونس، 1999کے ورلڈ کپ میں جن کی ٹیم میں جگہ نہیں بن رہی تھی، 2003 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے، یہ اور بات ہے کہ  یہ ورلڈ کپ ان کے اور پاکستانی ٹیم دونوں کے لیے ’باعثِ عزت‘ ثابت نہیں ہوا۔ گذشتہ ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے والی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں نیمبیا اور نیدر لینڈز جیسی کمزور ٹیموں سے ہی میچ جیت پائی۔  اس ورلڈ کپ کے ساتھ ہی وسیم اکرم اور وقار یونس کا کرکٹ کیریئر بھی اختتام کو پہنچا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 1992 کے ورلڈ کپ سے جڑی بدقسمتی نے سنہ 2003 کے ورلڈ کپ تک وقار یونس کا تعاقب کیا۔
 

شیئر: