Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سشما سوراج کی مٹھائی کے بدلے ملتانی حلوہ‘ 

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق انڈیا کے لہجے میں مٹھاس لانے کے لیے اب وہ اپنی انڈین ہم منصب سشما سوراج کو مٹھائی کے بدلے میں اپنے آبائی علاقے ملتان کا مشہور سوہن حلوہ بھیجیں گے۔
بدھ کو جدہ میں او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے موقع پر ’اردو نیوز‘ سے خصوصی بات چیت میں پاکستانی وزیر خارجہ نے انڈین وزیر خارجہ کو مٹھائی بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
اردو نیوز نے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج نے شنگھائی کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ آپ کچھ کڑوی باتیں کرتے ہیں اس لیے مٹھائی لائی ہوں تاکہ میٹھی باتیں کریں زیادہ کڑوی باتیں تو نئی دہلی کی طرف سے ہوتی ہیں کیا آپ سشما جی لیے ملتان کا سوہن حلوہ بھیجیں گے؟
اس سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’اردونیوز‘ کا آئیڈیا بہت اچھا ہے۔ ملتان کا سوہن حلوہ ویسے بھی بہت مشہوراوربہت لذیذ ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا ’مجھے نہیں معلوم انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج کو نئی کابینہ میں کیا ذمہ داری دی جاتی ہے تاہم وہ جہاں بھی ہوئیں انہیں ملتان کا سوہن حلوہ بھیجوں گا۔ میں ابھی اپنے سٹاف کو کہہ دیتا ہوں بشکیک کانفرنس میں سوہن حلوے کے ڈبے لے کر جانے ہیں۔‘

گذشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے انڈین ہم منصب سشما سوراج نے کرغزستان میں غیر رسمی ملاقات کی تھی

ایک اور سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی کی ملاقات سرکاری سطح پر طے نہیں ہوئی، ویسے بھی عمران خان نے ملاقات سے کبھی انکار نہیں کیا۔ اگر کسی فورم کی سائڈ لائن پر ملاقات ہوجاتی ہے تو یہ اچھی شروعات ہوگی۔ دنیا اسے سراہے گی، عالمی برادری اسے مناسب پیش رفت سمجھے گی۔ ملاقات ہوگی یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں عمران خان کو دعوت نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ بلائیں یا نہ بلائیں ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں وہ اپنے عمل کے۔ وزیراعظم عمرا ن خان نے مودی کو کامیابی پر مبارکباد دی اور ٹیلی فون بھی کیا انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ اسے بردباری کہتے ہیں۔ دنیا نے اسے پسند کیا اور سراہا ہے ۔
شاہ محمود نے کہا کہ پاکستان نے انڈین پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا حالانکہ پاکستان میں ایک طبقہ اس پر تنقید کررہا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ جلد بازی نہ کی جائے ،سودے بازی کرنا چاہئیے تھی تاہم دنیا نے اس خیرسگالی اقدام کو پسند کیا اوراسے مثبت انداز میں دیکھا گیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مثبت اپروچ کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔  ہم چاہتے ہیں کہ  معاملات کو بہتر بنائیں۔  پاکستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف تبدیلی اور بہتری کے ایجنڈے پر اقتدار میں آئی ہے۔  اس ایجنڈے پر عملددرآمد کی شرط یہ ہے کہ خطے میں امن ہو تاکہ معیشت پروان چڑھے ،اداروں کی اصلاح ہو سکے ، کرپشن کے خاتمے پر توجہ دیں جس سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہو۔

وزیر خارجہ شاہ محمود اوآئی سی اجلاس میں شرکت کےلئے جدہ پہنچنے پر 

 ایک اور سوال پرانہوں نے کہا کہ عمران خان نے انتخابات میں مودی کی کامیابی کی بات حالات دیکھ کر کی تھی۔ جس قسم کا فیڈ بیک ہمیں مل رہا تھا امکانات تھے کہ بی جے پی دوبارہ  برسراقتدار آئے گی۔ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوگیا کہ بی جے پی کو توقعات سے زیادہ نشستیں ملیں ۔ عمران خان کا خیال تھا کہ بی جے پی ہارڈ لائنر تصور کی جاتی ہے۔  اگر وہ بیٹھ کر کوئی بات کرے تو آگے بڑھنے میں آسانی ہوگی۔
شاہ محمود نے کہا کہ ـ’مجھے یہ بات معلوم ہے کانگریس کے دور میں وزیر اعظم منموہن سنگھ چاہتے تھے کہ معاملات آگے بڑھیں تاہم ان پر اتنا دباو تھا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔‘
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ واجپائی کی اپروچ بھی مختلف تھی کیونکہ ان کی اپروچ مدبرانہ تھی۔ ایک سیاسی انداز میں سوچنا ہوتا ہے۔ لوگ حکومت اور سیاسی مفاد کے لئے سوچتے ہیں جبکہ مدبر آنے والی نسلوں کے لئے سوچتے ہیں۔ واجپائی کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ان کی سوچ میں وسعت اور گہرائی تھی۔ اب بی جے پی  فیصلہ کرے کہ وہ واجپائی کی لائن کو فالو کرتی ہے یا نہیں۔ واجپائی کی حب الوطنی پر کوئی شک تو نہیں کرتا۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے انڈین ہم منصب سشما سوراج نے کرغزستان میں غیررسمی ملاقات کی تھی۔
یہ ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کے اختتام پر لابی میں ہوئی۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سشما جی سے بھی ملاقات ہوئی ہے وہ مٹھائی لے کر آئی ہیں تاکہ ہم میٹھا بولیں۔ سشما سوراج نے کہا کہ مٹھائی لائی ہوں تاکہ آپ کا لہجہ میٹھا ہوجائے، انہیں گلہ تھا کہ ہم کبھی کبھار کڑوا بولتے ہیں۔‘ 

شیئر: