Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تخت بھائی کے کھنڈرات جو زمین کو ہضم نہ ہوئے

1980 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
سُنا تو یہی ہے کہ گیا وقت پلٹتا نہیں لیکن پچھلے دنوں کچھ ایسا ہوا کہ لگا جیسے برسوں نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانا وقت لوٹ آیا ہو۔
یہ کہانی ہے ایسے مقامات کی جو سالہا سال آباد رہے، پھر جانے کیا ہوا کہ سب کچھ زمین تلے جا چھپا اور ایک دن دوبارہ آشکار ہو گیا۔
قدیم پتھروں سے بنی عمارت، ملگجا سا منظر، سرمُنڈھے اور لمبے چوغے پہنے انسان نما ہیولے، یہ سب کچھ بڑا پراسرار سا تھا۔ منظر بدلا تو گاڑی موٹروے پر تھی۔ تخت بھائی جاتے ہوئے آنکھ لگی اور کھنڈرات کے بارے میں خیالات تصویری روپ دھار گئے تھے۔ رشکئی انٹرچینج سے ہوتے ہوئے مردان سے مالاکنڈ روڈ پر آئے تو مقام نامی جگہ پر پہنچ گئے۔ پھر گوجر گڑھی، سری بہلول، جھنڈے کے علاقے پیچھے دوڑتے محسوس ہوئے۔ اگلے لمحے ’تخت بھائی‘ کا بورڈ دکھائی دیا جس کے بائیں جانب خستہ حال ریلوے سٹیشن تھا۔
ساتھ ہی چپلی کباب کے بورڈز نظر آنا شروع ہوئے۔ بازار سے آگے بڑھے تو دائیں جانب ایک راستہ مڑتا دکھائی دیا جس کے کنارے ’بدھ مت کے کھنڈرات‘ کا بورڈ لگا تھا۔ مین روڈ سے اترے تو ٹوٹی پھوٹی سڑک نے استقبال کیا اور عقب میں پہاڑ دکھائی دیئے، گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھتی رہی، کئی موڑ آئے اور ایسی جگہ پہنچے جہاں تین اطراف میں پہاڑ تھے۔
ایک طرف عارضی سی پارکنگ، دوسری جانب باغیچہ تھا، سامنے پہاڑ کے دامن میں سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔ ٹکٹ لے کر آگے بڑھے تو ابتدائی چند سیڑھیوں تک صرف پہاڑ ہی نظر آئے پھر قدیم دور کی چیزیں دکھائی دینا شروع ہوئیں۔ غار نما کمرے، چبوترے، سٹوپے اور چھجے سے تھے جن کے بارے میں مختلف لوگ مختلف تبصرے کر رہے تھے کہ ’یہاں پھانسی دی جاتی تھی، یہ قید خانہ تھا، یہ مقام مستورات کے لیے تھا، یہ عدالت تھی، یہ مندر تھا‘۔
یہ سب سن کر مقامی دوست کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا اور سرگوشی کی کہ ’یہ درس گاہ تھی، یہاں ان چیزوں کا کیا کام۔‘ مزید اوپر گئے تو بچپن میں دیکھی فلم ’لیبرنتھ‘ یاد آ گئی، کچھ مقامات پر گزرگاہ اتنی تنگ تھی کہ ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ یہ ایک الف لیلوی جادوئی قسم کا ماحول ہے جہاں جا کر انسان ماضی کو کھنگالتا کھنگالتا خود ماضی میں پہنچ جاتا ہے۔ کھنڈرات چونکہ چوٹی پر واقع ہیں اس لیے وہاں پہنچ کر تخت بھائی شہر کسی کینوس پہ اتری پینٹنگ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔
کھنڈرات چوٹی پر واقع ہیں جہاں سے تخت بھائی کسی کینوس پہ اتری پینٹنگ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔
کھنڈرات چوٹی پر واقع ہیں جہاں سے تخت بھائی کینوس پہ اتری پینٹنگ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

کھنڈرات کی تاریخ
تخت بھائی کا نام ان کھنڈرات کی وجہ سے ہی پڑا۔ لفظ تخت بھائی کے دو تین معنی سامنے آتے ہیں۔ سنسکرت میں تخت کا مطلب کنویں کا ہے اور بہائی کا مطلب ہے بلندی، فارسی میں تخت کا مطلب تخت ہی نکلتا ہے جبکہ کچھ لوگ تخت کو چشمے کے معنی میں بھی لیتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے یہ درس گاہ پہلی صدی قبل مسیح میں بنائی گئی تھی۔
1980 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا، یہ سطح زمین سے ڈیڑھ سو میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بدھ حکمران کنشک نے اسے تعمیر کرایا تھا۔ سنہ 1833 میں جب کچھ مزدوروں کو مٹی کھودتے ہوئے پرانے سکے اور مورتیاں ملیں تو انگریز حکومت حرکت میں آئی۔ سر جان مارشل نے اس حوالے سے کافی کام کیا۔ ان آثار قدیمہ کا پتا سب سے پہلے ایک فرانسیسی جنرل کورٹ نے لگایا جو پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں افسر تھے۔
سنہ 1852 میں لیفٹینٹ لمسوٹین اور سٹوکس نے کھدائی کی۔ سنہ 1864 میں ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بلیو نے ان آثار کا تفصیلی معائنہ کیا جنہوں نے بعد میں وادی پشاور کی تاریخ بھی لکھی۔  سنہ1869 اور 1870 کے درمیان جنرل میکلیکس نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے یہاں خصوصی دستہ بھیجا اس وقت بڑی تعداد میں مجسمے برآمد کیے گئے جو مختلف عجائب گھروں میں موجود ہیں۔
اس کے بعد سارجنٹ ویلچر کی قیادت میں کھدائی کرنے والوں کا دستہ بھیجا گیا جبکہ 1872 میں لیفٹینٹ کرامیٹسن اور 1873 میں سرالیگزنڈر کنھگم نے کھدائی کا کام جاری رکھا۔
بعدازاں باقاعدہ کھدائی 1907 میں پشاور میوزیم کے منتظم ڈاکٹر ڈی بی اسپوز کی رہنمائی میں کی گئی۔ پھر ایچ بارگیوس نے بھی کام کیا یوں 1927 میں ان آثار کے بارے زیادہ واضح طور پر معلوم ہوسکا۔
پہلے یہاں پہنچنے کے لیے پہاڑی راستوں اور پتھروں سے گزر کر جانا پڑتا تھا اب باقاعدہ راستہ بنا دیا گیا ہے۔ درس گاہ کے کھنڈرات کسی افسانوی داستان کا کوئی خاص مقام لگتے ہیں۔ چینی سیاح چار سو سال قبل مسیح میں بدھ مت کی مقدس زیارتوں کے لیے برصغیر آئے تو انہوں نے اپنی تحریروں میں شمال مغربی سرحدی صوبہ (کے پی) اور ٹیکسلا کا بھی ذکر کیا۔
ان کے مطابق اس سرزمین میں بدھ مت کی نایاب چیزیں ہیں۔ پھر دو صدیوں بعد راجہ ہرش کے دور حکومت میں ایک اور سیاح ہیون سانگ برصغیر آئے اور انہوں نے بھی اس کا ذکر کیا۔ کالے پتھروں سے بنی یہ عمارت اب بھی تین منزلوں پر مشتمل ہے۔
سیڑھیوں کی مدد سے اوپر جایا جائے تو سب سے پہلے دائیں جانب دو منزلہ عمارت سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ پشت پر واقع راستہ صحن میں  داخلے کے لیے ہے۔ یہاں مختلف راہداریوں سے گزرنا پڑتا ہے اور مستطیل میدان میں چبوترے بنائے گئے ہیں۔ یہاں سٹوپے بھی موجود ہیں۔ درمیان میں کھلا صحن ہے۔
ایک طرف ایک مستطیل مقام ہے جسے سر الیگزنڈر کنھگم نے اسمبلی ہال قرار دیا تھا۔ یہیں سے بدھا کا نامکمل مجسمہ برآمد ہوا تھا جو اب عجائب گھر میں موجود ہے۔ خانقاہ یادگار سے ایک بڑی راہداری کے ذریعے ملی ہوئی ہے، گول خاکی رنگ کے پتھروں کا بنا ہوا ایک بڑا سا چبوترہ ہے۔
تیسری منزل پر چاروں طرف کمرے اور حجرے بنے ہوئے ہیں، کچھ کمروں کی چھتیں موجود ہیں۔ ان کو طلبا رہائش کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کھدائی کے دوران بدھ مت دور کی بے شمار چیزیں بھی ملیں جن میں زیادہ تر پشاور عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ کچھ مورتیاں، سٹوپے، مٹی اور پتھر کے برتن اور دوسری اشیا یہاں ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ بدھ مت کے بڑے اہم مراکز میں سے ایک تھا جہاں چین، افغانستان، وسط ایشیا اور دیگر ممالک میں بدھ کے مبلغ بھیجے گئے۔ چین، کوریا، جاپان وغیرہ سے سیاح یہاں آتے ہیں۔
کھدائی کے دوران بدھ مت دور کی بے شمار چیزیں بھی ملیں جن میں زیادہ تر پشاور عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔
کھدائی کے دوران بدھ مت دور کی بے شمار چیزیں ملیں جو پشاورعجائب گھر میں محفوظ ہیں۔

تخت بھائی اور بدھ مت
تخت بھائی مردان کی تحصیل ہے، تاریخ دان اس امر پر متفق ہیں کہ یہاں بدھ مت حکومت رہی۔ تین چار ہزار سال پہلے تخت بھائی بدھ مت کا گہوارہ رہا۔ اس خطے میں بدھ مت کے کھنڈرات محمود غزنوی، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، سکندر، ظہیر الدین بابر اور دیگر مغلوں، درانیوں، سکھوں اور انگریزوں کی فتوحات اس بات کی عکاس  ہیں کہ یہ علاقہ ماضی میں مختلف تہذیبوں کا مسکن رہا ہے خصوصاً تیسری صدی قبل مسیح میں بدھ مت نے کافی ترقی کی۔
اس دوران مہاراجہ اشوک نے 232 قبل مسیح سے 269 قبل مسیح تک حکومت کی۔ اشوک دور کے ایک کتبے سے جو ٹیکسلا کے آثار قدیمہ سے ملا، یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان کی حکومت خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی جس میں تھوڑے سے جنوبی حصے کو چھوڑ کر تمام ہندو پاک اور افغانستان کا علاقہ شامل تھا۔

شیئر: