انڈیا کے شہر چنائی میں مختلف کمپنیوں کی جانب سے اپنے ملازمین کو کہا گیا ہے کہ پانی بچانے کے لیے وہ دفتری کام اپنے گھروں میں بیٹھ کر کریں۔
چنائی میں پانی کے پانچ بڑے ذخائر گذشتہ دو سیزنز سے مون سون کی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خالی ہو چکے ہیں جس سے قریباً 50 لاکھ افراد کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
چنائی میں انڈیا کی ایک تہائی آٹوموبائل انڈسٹری ہے، اس شہر میں 500 کے قریب نیشنل اور ملٹی نیشنل آئی ٹی کمپنیاں بھی ہیں۔ خشک سالی کی وجہ سے کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ پانی کے استعمال کو کم کریں۔
ان میں سے کچھ آئی ٹی کمپنیوں نے پانی کی کمی کے مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ ان کے ملازمین دفتر نہ آئیں بلکہ ان ملازمین کی کل تعداد کا پانچواں حصہ گھروں میں ہی بیٹھ کر اپنے دفتر کے لیے کام کرے۔
اطالوی کمپنی فیاٹ، کرائسلر اور ملٹی نیشنل آئی ٹی فرمز ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز، وائپرو اور کوگنیزونٹ نے اپنے ملازمین کو ہدایت کی ہے کہ کینٹین اور واش رومز میں پانی کے استعمال کو کم کیا جائے۔
کوگنیزونٹ ملٹی نیشنل کمپنی نے باؤڈی گریڈیبل پلیٹیں اپنی کینٹینوں میں استعمال کرنا شروع کر دی ہیں، جم میں نہانے کی سہولت بھی ختم کی ہے اور کیفے ٹیریا میں برتنوں کو صاف کرنا کم سے کم کر دیا ہے۔‘
آئی ٹی ملازمین فورم کے سیکرٹری جنرل اے ونود نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ کچھ بڑی آئی ٹی کمپنیوں نے یہ تجویز کیا ہے کہ ملازمین پانی کا مسئلہ حل ہونے تک اپنے گھروں سے ہی کام کریں۔
چنائی شہر کے نچلےاور متوسط طبقے کے علاقوں میں میونسپلٹی کا پانی ہفتے میں دو بار آتا ہے۔ چھتلہ پکم کی رہائشی سنیتا کے مطابق ’ ان کے علاقے میں ہفتے میں دو بار پانی آتا ہے جس سے ان گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے۔‘
چنائی شہر کو ہر روز 800 ملین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن چنائی میونسپل کارپوریشن 500 ملین سے کم لیٹر پانی سپلائی کرتی ہے۔
پانی کی کمی پرائیویٹ ٹینکرز سے پوری کی جاتی ہے اور ہر ٹینکی کی قیمت 71 ڈالرز ہے۔
گذشتہ کئی ماہ میں چنائی میں 100 کے قریب ہاسٹلز بھی پانی کی کمی کے باعث بند ہوچکے ہیں۔
چنائی شہر اپنے پانی کا انحصار پانچ جھیلوں پر کرتا ہے لیکن مون سون کی کم بارشوں کی وجہ سے یہ جھیلیں خشک ہو چکی ہیں۔
تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ نے پانی کی قلت کے مسئلے پر کہا ہے کہ میڈیا نے صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور اکتوبر تک بارشیں ہونے سے پانی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔
مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ سٹڈیز کے پروفیسر ایس جانکراجن نے خشک سالی کی وجہ حکومت کی غفلت کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پانی کے مسئلے کا متبادل حل پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔