‘ امیر قطر کادورہ کسی خاندان کو ریلیف دلوانے کے لیے نہیں تھا’
‘ امیر قطر کادورہ کسی خاندان کو ریلیف دلوانے کے لیے نہیں تھا’
منگل 25 جون 2019 3:00
پاکستان کی حکومت نے ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ امیر قطر کے دورے کا مقصد کسی خاندان کو ریلیف دلوانا تھا بلکہ ملک میں سرمایہ کاری کرنا تھا۔
منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ امیر قطر کے دورہ پاکستان کا تعلق کسی خاندان کو ریلیف دلوانے کے لیے نہیں تھا، جس نے جو بویا ہے وہ کاٹنا پڑے گا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ہی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیرریلویز شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے بچے انہیں ریلیف دلوانے کے لیے دوست ممالک اورعالمی رہنماؤں کے ذریعے کوششیں کر رہے ہیں۔ ’اردو نیوز‘ کے نامہ نگار زبیر علی خان کے مطابق انہوں نے واضح کیا کہ طیب اردوان، سعودی ولی عہد اور دیگر عرب رہنماؤں سمیت کسی عالمی رہنما نے وزیراعظم عمران خان سے شریف خاندان کو ریلیف دینے کی بات نہیں کی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے شیخ رشید کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کے عالمی رہنماؤں سے رابطوں کے حکومتی دعوؤں میں ہی تضاد ہے۔ ایک طرف وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ شریف خاندان عالمی رہنماؤں سے رابطے کر رہے ہیں اور دوسری جانب خود ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ عالمی رہنماؤں نے وزیراعظم سے شریف خاندان کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔
احسن اقبال نے کہا کہ شریف خاندان وزیراعظم عمران خان کے اعصاب پر سوار ہے، انہیں چاہیے کہ وہ این آر او کی باتیں کرنے کے بجائے کارکردگی دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلم لیگ ن نے این آر او لینے کے لیے کوئی رابطہ کیا ہے تو حکومت اس کے ثبوت سامنے لے کر آئے۔
ماضی قریب میں بھی اس طرح کی افواہیں گردش کرتی رہی ہیں کہ شریف فیملی نے اپنی مشکلات کم کرنے کے لیے سعودی عرب کے ولی عہد، امیر قطر اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے مدد مانگی ہے تاہم آزادانہ ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی۔
دیکھا جائے تو ان افواہوں کو ماضی میں شریف فیملی کی اچانک جدہ منتقلی کے تناظر میں تقویت ملتی ہے۔ واضح رہے کہ 2000 میں شریف فیملی سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے ساتھ 10 سالہ معاہدہ کر کے جدہ منتقل ہو گئی تھی اور اس معاہدے میں سعودی عرب نے ضامن کا کردار ادا کیا ہے۔
یاد رہے کہ پہلے نواز شریف نے ایسے کسی معاہدے سے انکار کیا تاہم بعد میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ دس نہیں پانچ سال کا معاہدہ ہوا تھا۔
اس کے علاوہ شریف فیملی کے سعودی شاہی خاندان، قطر کے حکمرانوں اور رجب طیب اردوان سے ذاتی تعلق کی وجہ سے بھی اس طرح کی افواہیں سامنے آتی ہیں۔