تالپوروں نے ہالانی کے میدان میں کلہوڑوں سے جنگ جیتی اور سندھ پر 60 سال حکمرانی کی لیکن میانی کے میدان میں انگریزوں سے ہار گئے۔ تالپور آزاد سندھ کے آخری حکمران تھے۔ پھر نہ تالپوروں کی حکومت رہی نہ سندھ آزاد رہا۔
انگریزوں کے ہاتھوں سندھ کی فتح سے پہلے تین تالپور برادران اپنے اپنے صوبوں کے حکمران تھے۔ میر سہراب خان تالپور کے پاس خیرپور، میر فتح علی خان کے پاس حیدرآباد، اور میرٹھارا خان کے پاس میرپورخاص کی حکمرانی تھی۔ بعدازاں انہی تین گھرانوں کے افراد سیاست میں آئے۔ ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو باگو حیدرآباد کے تالپوروں کے خاندان میں سے تھے۔
سیاست جاگیردارانہ کھیل
بمبئی سے علیحدگی کے وقت سندھ میں سیاست جاگیردارانہ کھیل تھا۔ پچاس کے عشرے کے وسط تک سیاسی جوڑ توڑ کا عروج رہا۔ ستر سال کے دوران 14 حکومتیں تشکیل دی گئیں۔ غلام حسین ہدایت اللہ پانچ مرتبہ، خان بہادر ایوب کھڑو تین مرتبہ، اللہ بخش سومرو دو بار جبکہ میر بندہ علی تالپور، عبدالستار پیرزادہ، قاضی فضل اللہ، پیر الہٰی بخش اور یوسف ہارون ایک ایک بار وزیر اعلیٰ رہے۔ ایوب کھڑو، میر بندہ علی تالپو، سید میراں محمد شاہ چار حکومتوں میں وزیر رہے۔
جاگیردار طبقے کے 20 افراد اس دور میں سندھ کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ قیام پاکستان سے لے کر 1954 تک چھ بڑے جاگیردار مرکز میں سندھ کی نمائندگی کرتے رہے۔ ایوب خان کی زرعی اصلاحات اور سیاسی نظام عملی کا عکس ایک عشرے بعد ظاہر ہوا۔
عوامی سیاست والے حیدرآباد کے میر
حیدر آباد کی سیاست میں تالپور خاندان میں نمایاں کردار میر علی احمد تالپور اور میر رسول بخش تالپور کا رہا۔ دونوں بھائیوں نے سیاسی کیریئر کا آغاز روشن خیال سیاست سے کیا اور ان کا طریقہ کار جاگیردارانہ کے بجائے عوامی تھا۔
علی احمد تالپور نے 1937 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں خاکسار تحریک، خان عبدالغفار خان کی پارٹی، میاں افتخارالدین کی آزاد پاکستان پارٹی سے ہوتے ہوئے 1951 میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1953 میں سندھ اسمبلی کے اور 1955 میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ مغربی پاکستان کے وزیر بھی رہے۔
میر علی احمد 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخاب جیتے، لیکن 1973 کے آئین پر اختلافی نوٹ لکھا۔ 1975 میں پیپلزپارٹی کو خیرباد کہا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، تو میرعلی احمد ضیا کابینہ میں وزیر دفاع تھے۔ علی احمد تالپور کے اس اقدام پر سندھ آج تک ناراض ہے۔ 1985 کے انتخابات میں میر علی کامیاب نہ ہوسکے۔
سازش مقدمات اور حیدرآباد کے میر
راولپنڈی سازش کیس کا جب مقدمہ حیدرآباد میں چلا تو میر رسول بخش تالپور کا بنگلہ اسیران کے عزیزوں اور احباب کا مرکز بنا رہا۔ یہی روایت انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کے خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو و دیگر کے خلاف چلنے والے مقدمے میں بھی برقرار رکھی۔
رسول بخش تالپور نے حیدرآباد میں مزدور تحریک کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ’گاڑی کھاتہ حیدرآباد‘ کا ٹریڈیونین آفس ان کے نام پر کرایہ پر لیا گیا تھا۔ میر برادران نے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ جب بھٹو نے سندھ میں پیپلزپارٹی کو منظم کرنا چاہا تو میررسول بخش نے آگے بڑھ کر ساتھ دیا اور انہیں پیپلز پارٹی سندھ کا صدر مقرر کیا گیا۔ بعد میں بھٹو سے اختلافات پیدا ہو گئے اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
میر رسول بخش تالپور ادب دوست تھے۔ فیض احمد فیض، احمد فراز اور دیگر بڑے بڑے شعرا ان کے مہمان بنتے رہتے تھے۔
میر علی احمد کے بیٹے حیدر علی تالپور غیر جماعتی انتخابات میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد میں ہونے والے انتخابات میں ان کو کسی میں بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ میر رسول بخش تالپور کے بیٹے میر رفیق تالپور نے تین مرتبہ سیاست میں طبع آزمائی کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔