پاکستان میں بعض ٹی وی چینلز نے ذرائع کے حوالے سے خبر چلائی ہے کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیرک سے اے سی اتار لیا گیا ہے تاہم متعلقہ حکام سے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
آئی جی جیل خانہ جات شاہد سلیم بیگ کے مطابق انہیں ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ایسے کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے جس میں براہ راست سابق وزیراعظم کی جیل میں سہولیات واپس لینے کی بات کی گئی ہو۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیر اطلاعات میاں اسلم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت صرف اس چیز کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ جیل مینوئل پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو، کسی خاص وجہ کے باعث کسی فرد کو بہتر سلوک کا حق دار نہیں بنایا جا سکتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’باقی بھی وہاں ڈھیر سارے قیدی ہیں ان کو بھی جیل مینوئل کے مطابق ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔‘
کوٹ لکھپت جیل کے سپرینٹنڈنٹ اعجاز اصغر کے مطابق انہیں بھی ابھی تک ایسے کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے جس میں نواز شریف سے سہولیات واپس لینے کا کہا گیا ہو۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’نواز شریف کو جو سہولیات اڈیالہ جیل میں میسر تھیں، لاہور منتقلی پر بھی انہیں ویسی ہی سہولیات دی گئیں۔کوٹ لکھپت جیل حکام نے کسی سہولت کا اضافہ نہیں کیا البتہ انہیں جیل میں دی جانے والی سہولیات واپس لینے کے احکامات ابھی تک موصول نہیں ہوئے، احکامات ملے تو ان کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے دورہ امریکہ کے دوران اپنے خطاب میں نواز شریف سے جیل میں اے سی اور ٹیلی ویژن کی سہولیات واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی ملک واپسی کے بعد یہ بحث شدت اختیار کر گئی تھی کہ نواز شریف کی بیرک سے اے سی اترے گا یا نہیں۔
اس کے بعد مسلم لیگ ن کی راہنما مریم نواز نے بدھ 4 جولائی کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو جیل میں بنائے گئے میڈیکل بورڈ کا تحریری فیصلہ دکھایا جس میں بورڈ نے سابق وزیر اعظم کے کمرے کا درجہ حرارت ان کی بیماری کے پیش نظر معتدل رکھنے کی تجویز دی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کو میڈیکل بورڈ کے اس فیصلے کی کاپی بھی نہیں دی گئی تھی۔
اس حوالے سے جیل مینوئل کیا کہتا ہے؟
سہولیات واپس لینے کے حوالے سے عمران خان کے بیان کے بعد سمجھا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم وطن واپس پہنچیں گے اور آئی جی جیل خانہ جات کو فون کر کے اے سی اور ٹی وی واپس لینے کا حکم دیں گے مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ اکرام چوہدری کے مطابق نواز شریف سے سہولیات واپس لینے کے لیے پنجاب حکومت کو قانون میں ترمیم کرنا ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ جیل قوانین میں مجوزہ ترمیم صوبائی کابینہ کو بھیجی جائے گی۔ کابینہ منظوری کے بعد بل صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دے گی جس کے بعد بل اسمبلی میں پیش ہوگا۔ اسمبلی بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے گی جس کی منظوری کے بعد اسے دوبارہ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ بل پاس ہونے کی صورت میں گورنر کے دستخطوں کے بعد نافذ ہو سکے گا لہذا اس عمل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
اکرام چوہدری کے مطابق حکومت اسے لمبے طریقہ کار سے بچنے کے لیے خصوصی ایس آر او بھی جاری کر سکتی ہے جو فوری طور پر نافذ العمل کیا جا سکتا ہے۔
اکرام چوہدری کا خیال ہے کہ کلاس سسٹم سزا یافتہ قیدیوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ انڈر ٹرائل اور حوالاتیوں کے لیے ہی ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ جیل ایکٹ 1978ء کے تحت پاکستان میں قیدیوں کے لیے تین درجے تشکیل دیے گئے ہیں جنھیں اے، بی اور سی کہا جاتا ہے۔ اے اور بی کٹیگری کو خصوصی کلاس بھی کہا جاتا ہے۔
جیل مینوئل کے مطابق جن قیدیوں کو اے کلاس دی جاتی ہے انھیں رہائش کے لیے دو کمروں پر محیط ایک الگ بیرک دی جاتی ہے جس کے ایک کمرے کا سائز نو ضرب 12 فٹ ہوتا ہے۔
اس کلاس کے قیدی کے لیے بیڈ، اے سی، فریج ، ٹی وی اور فرنیچر کے علاوہ الگ باورچی خانے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔
اے کلاس کے قیدی کو جیل کا کھانا کھانے کی بجائے اپنی پسند کا کھانا پکانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اے کلاس میں رہنے والے قیدی کو دو مشقتی بھی دیے جاتے ہیں۔
جن قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے ان کو ایک الگ سے کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے تاہم اگر جیل سپرنٹنڈنٹ چاہے تو مشقتیوں کی تعداد ایک سے بڑھا کر دو بھی کر سکتا ہے۔
اڈیالہ جیل میں نواز شریف کو اے کلاس جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بی کلاس دی گئی تھی تاہم کوٹ لکھپت جیل میں اے کلاس کی سہولیات نہ ہونے کے باعث نواز شریف کو بی کلاس کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں کیونکہ اڈیالہ اور بہاولپور جیل کے علاوہ پنجاب کی کسی جیل میں اے کلاس سہولت موجود نہیں ہے۔