1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد سے شوالہ تیجا سنگھ کا مندر بند تھا۔ (تصویر: اے ایف پی)
رواں سال اپریل کے مہینے میں پاکستان کی ہندو کمیونٹی کے رہنما سریندر کمار کو ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس کا انہیں قریباً دو دہائیوں سے انتظار تھا۔
فون پر متروکہ املاک وقف بورڈ کے ایک عہدیدار نے سریندر کو ایک اچھی خبر سنائی کہ ’ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کمار کے آبائی علاقے سیالکوٹ میں 72 سال سے بند ایک ہزار سال قدیم مندر کو دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔‘
عرب نیوز کے مطابق قدیم شوالہ تیجا سنگھ ٹیمپل کو اس وقت بند کر دیا گیا تھا جب 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہزاروں ہندو سیالکوٹ اور دوسرے علاقوں سے انڈیا چلے گئے تھے۔ اس وقت سے یہ عمارت متروکہ وقف املاک بورڈ کی زیر نگرانی ہے۔
خیال رہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ کا کام ان عمارتوں اور جائیدادوں کی نگرانی اور حفاظت ہے جنہیں تقسیم کے وقت لوگ چھوڑ کر انڈیا چلے گئے تھے۔
سریندر کمار نے عرب نیوز کو بتایا کہ انہوں نے 2002 کے بعد پاکستان کے وزرائے اعظم اور صدور کو اس مندر کے حوالے سے ’ہزاروں‘ خطوط لکھے۔ ان کے خط میں یہ جملہ ہوتا تھا کہ ’ سیالکوٹ میں قریباً 100 ہندو فیملیز ہیں اور ان کا ایک ہی مندر ہے اور وہ بھی بند ہے۔‘
لیکن کسی نے کمار کے خطوط کا جواب نہیں دیا وہ قریباً ہمت ہار چکے تھے جب اس سال کے شروع میں انہوں نے بورڈ کے عہدیدار کی کال وصول کی کہ مندر کو دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔ مذکورہ خبر سے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
گذشتہ سنیچر کو مندر کو دوبارہ کھولنے کی چھوٹی سی تقریب منعقد ہوئی۔ سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے متروکہ وقف املاک بورڈ کے تعاون سے مندر کو دوبارہ کھولا ہے۔ ’اب لوگ کسی بھی وقت مندر جا سکتے ہیں۔‘
بورڈ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ مندر کو کھولنے کی باضابطہ تقریب اس سال 5 اگست کو ہو گی جب ہندو ناگ پنچامی کا تہوار منا رہے ہوں گے ۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی خبریں بھی اکثر سامنے آتی رہتی ہیں اور حکومتیں اقلیتوں کے ورثے کو اپنانے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہیں۔
لیکن عالمی سطح پر ملک کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کی سابق حکومت اور تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اقلیتوں کے حوالے سے گرمجوشی کے مظاہرے کیے ہیں۔
عمران خان نے حکومت میں آنے کے چند ماہ بعد 25 دسمبر 2018 کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا ’حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔‘
عمران خان، جو کہ ایک قدامت پسند شخصیت تصور کیے جاتے ہیں اور ماضی میں طالبان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے پر زور دیتے رہے ہیں، حالیہ دنوں میں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔
گذشتہ سال حکومت نے سکھ یاتریوں کو سیالکوٹ میں ایک قدیم گوردوارے کے دورے کی اجاز ت دینے کا اعلان کیا۔ گذشتہ برس ہی ایک بہت غیر معمولی اقدام کے طور پر پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ انڈیا کے ساتھ مل کر کرتارپور میں سکھ مذہب کے بانی کی قبر تک ویزا فری رسائی دینے کے لیے راہداری تعمیر کرے گا۔
سینیئر حکومتی عہدیداروں کے مطابق حکومت کا اقدام ملک میں سیاحت اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی حکومتی پالیسی کا حصہ ہے۔
کمار نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ مندر کھولنے کے فیصلے پر حکومت کے بہت زیادہ مشکور ہیں۔
متروکہ وقف املاک بورڈ کے نئے چیئرمین ڈاکٹر عامر احمد کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ کے مندر کھولنے کا فیصلہ وزیراعظم کی ہدایت پر کیا گیا۔ ’ جب میں نے عہدہ سنبھالا تو وزیراعظم کی جانب سے مجھے سیالکوٹ کے مندر کو کھولنے کا پیغام موصول ہوا۔‘
اگرچہ ڈاکٹر عامر نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ آیا مندر کھولنے کا حکم وزیراعظم نے براہ راست دیا تھا مگر ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی بنیاد یہ احساس تھا کہ پاکستان کے 13 ویں بڑے شہر میں ہندوؤں کو مندر کی ضرورت ہے۔
ہم نے نوٹس کیا کہ شہر میں ہندوؤں کی بڑی تعداد آباد ہے اور عبادت کے لیے انہیں مندر کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی تیجا سنگھ مندر کی تعمیر نو کے احکامات دیے گئے۔
شوالہ تیجا ٹمپل سیالکوٹ کے ایک گنجان آباد رہائشی علاقے میں ریت کے ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔ مندر جو کہ کبھی گرینائیٹ اور بھربھرے پتھروں کا عجوبہ خیال کیا جاتا تھا کئی سال مرمت اور نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہے۔ مندر کے بیرونی ستونوں پر کی گئی نقاشی یا تو مٹ گئی ہے یا نشیئوں نے انہیں کھرچ ڈالا ہے اور لمبے ٹرنگا شیوا بھگوان کی مورتی کو یا تو کسی نے تباہ کر دیا ہے یا چوری کر لیا ہے۔
اب متروکہ وقف املاک بورڈ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر سمیرا رضوی کی نگرانی میں بنیادی مرمت کا کام جاری ہے۔ سمیرا رضوی کا کہنا ہے کہ مندر کے اردگرر چار دیواری کی تعمیر مکمل کر لی گئی ہے اور عبادت کرنے کی جگہ کے قریب ایک دروازہ بھی نصب کیا گیا ہے۔
مندر کے بیرونی اور اندرونی حصے کی دیواروں پر کی گئی وال چاکنگ بھی صاف کردی گئی ہے تاکہ 5 اگست کو اس کا باضابطہ افتتاح کیا جا سکے۔
سمیرا رضوی کا کہنا ہے کہ مندر میں رکھنے کے لیے مورتیاں پاکستان اور انڈیا کے مندروں سے لائی جا رہی ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مندر کی مکمل بحالی کے کام میں پانچ سال لگ سکتے ہیں جس کے لیے یونیسکو اور کراچی کی آغا خان فاؤنڈیشن کی مدد لی گئی ہے۔
چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کا کہنا ہے کہ ہم اس کی مرمت میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ’ہم اسے اس کی اصل شکل میں بحال کرنا چاہتے ہیں جس میں وقت لگے گا۔‘
سیکرٹری جنرل پاکستان ہندو پنچائت راوی دیوان کے مطابق شوالا تیجا سنگھ مندر کی بحالی پاکستان کے ہندوؤں کے لیے بہت بڑی فتح کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کے کل 10 ہزار مندروں میں سے اس وقت صرف 4 ہزار کھلے ہوئے ہیں۔
پنجاب کے مذہبی امور کے وزیر سید سعید الحسن شاہ کا کہنا ہے کہ ہندوؤں، سکھوں اور بدھ مدت کی ویران عبادت گاہوں کی مرمت اور بحالی حکومت کی مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ اس سے معاشی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
جب ان مذاہب کے پیروکار مختلف ممالک سے پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو یہ ملکی معیشت کے فروع کا سبب بنتا ہے لیکن سمیرا رضوی کے مطابق اس کا سب سے بڑا فائدہ ایک ایسے ملک میں مذہبی رواداری کا فروغ ہے جو کہ مذہبی شدت پسندی اور تشدد سے کافی عرصے تک متاثر رہا ہے۔
سمیرا رضوی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب سے انہوں نے مندر کی مرمت اور بحالی کے کام کی نگرانی شروع کی ہے انہیں روزانہ کی بنیاد پر ہندوؤں سے کارڈز اور خطوط موصول ہو رہے ہیں اور بہت سارے لوگ ملنے بھی آتے ہیں۔ ’ہمیں اس طرح رہنا چاہیے۔ بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایک دوسرے کی عزت کرکے۔‘