Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کو بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتار

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد نازیبا ویڈیو بنانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بچوں کو نازیبا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر کے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ایک  گروہ کا انکشاف ہوا ہے جس کا سرغنہ مبینہ طور پرایک پولیس اہلکار نکلا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق گروہ کے سرغنہ نے اسلام آباد کے نسبتا غریب مگر گنجان آبادعلاقے کو ٹارگٹ کیا جہاں بچے اکثر گلی محلوں اور تنگ گلیوں میں کھیلنے نکلتے ہیں۔ آبپارہ پولیس نے اتوار کو گروہ کے سرغنہ کو گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق گروہ کا سرغنہ کمسن بچوں اور نوعمر لڑکوں کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے پرانے شکار بچوں کو ہی ذریعہ بناتا رہا اور نئے بچوں کو ’دوست‘ بنا کرمبینہ طور پر انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا۔

آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار نے تصدیق کی کہ پولیس اہلکار کو بچوں کی نازیبا ویڈیو بنانے اور بد فعلی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس کے متعدد افراد نے تصدیق کی کہ ملزم نے ان کے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا یا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
جی سکس ٹو کے ایک رہائشی عبدالقیوم ( فرضی نام) کے مطابق پچھلے ہفتے ان کے بیٹے کو محلے کے چند بچوں نے بتایا کہ ایک پولیس والے انکل آپ سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے بیٹے نے گھر آ کر بتایا تو تشویش شروع ہو گئی۔ دوسرے بچوں سے پوچھنے پر والد کو پتا چلا کہ مذکورہ اہلکار محلے کے درجنوں بچوں کے ساتھ ’دوستی‘ کر چکا ہے۔
عبدالقیوم نے محلے کے تقریبا بارہ بچوں کو کمپیوٹر کے سامنے بٹھا کر فیس بک پرشہزاد نام کے تمام اکاونٹس کی تصاویر دکھائیں۔ ایک تصویر کو سب بچوں نے کانسٹیبل شہزاد کے طور پر پہچان لیا۔
بچوں نے عبدالقیوم کو بتایا کہ ملزم پہلے چپس اور کولڈ ڈرنک پلا کر دوستی کرتا ہے اور پھر اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر کے کمرے میں یا پولیس لائنز میں اپنے گھر لے جا کر زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کے مطابق جو بچے مزاحمت کریں تو انہیں پولیس کی وردی اور پستول دکھا کر دھمکاتا ہے۔
اس کے بعد عبدالقیوم آبپارہ پولیس سٹیشن گیا تو وہاں تفتیشی افسر نے اسے ملزم سے ملوا دیا جس نے کسی قسم کے جرم سے انکار کیا مگر بچوں سے ملنے پر معافی مانگی اور کہا کہ وہ آئندہ ان کے محلے میں نہیں آئے گا۔
عبد القیوم کے مطابق جی 6 کے دس سے گیارہ سال کی عمر کے تقریباً تمام بچے ملزم کو پہچانتے ہیں، کیونکہ وہ ان سے ’دوستی‘ کی کوشش کر چکا ہے۔

جی 6 کے دس سے گیارہ سال کی عمر کے تقریباً تمام بچے ملزم کو پہچانتے ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی 

تاہم چند دن بعد ایک کلومیٹر دور سیکٹر جی سکس ون ٹو کے رہائشی محمد کامران کو اس کے بھتیجے نے بتایا کہ ایک پولیس اہلکار کے پاس اس کے بیٹے کی ویڈیو ہے جس میں اسے برہنہ دکھایا گیا ہے۔
تحقیقات کرنے پر پتا چلا کہ محلے کے تین افراد اس اہلکار کے ساتھ شامل ہو کر بچوں کو محلے کے ہی ایک گھر لے جا کر انکی ویڈیوز بناتے ہیں۔
کامران نے ان تین افراد کو پولیس کے حوالے کیا مگر اگلے دن ان کے والدین کی یقین دہائی پر انہیں رہا کر دیا گیا۔ تاہم اتوار کو شہزاد خود اسی محلے میں بچوں کے والدین کے ہاتھوں پکڑا گیا جہاں اس نے پستول کے زور پر ان کو ڈرانے کی کوشش کی مگر اسے قابو کر لیا گیا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار نے تصدیق کی کہ پولیس اہلکار شہزاد خالق کو بچوں کی نازیبا ویڈیو بنانے اور بد فعلی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے اور اسے نوکری سے بھی نکال دیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق آبپارہ پولیس نے شہزاد کے خلاف بدفعلی اور دھمکانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ تاہم نچلی سطح کے پولیس اہلکار اپنے ہم پیشہ شہزاد کے خلاف زیادہ ایکشن سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کم از کم تین والدین نے اپنے بچوں کی شہزاد گینگ کے ہاتھوں زیادتی کی تصدیق کی تاہم آبپارہ پولیس کے ایس ایچ او غلام رسول مصر ہیں کہ ملزم کے خلاف صرف ایک درخواست ملی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے غلام رسول نے واقعہ کو ایک کم سنگین انفرادی واقعہ قرار دینے کی کوشش کی ۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا پولیس اہلکار کا بچوں کے خلاف اس طرح کے منظم جرائم میں ملوث ہونا لمحہ فکریہ نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ آبپارہ کے حدود میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے زیادہ واقعات رپورٹ نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے موبائل سے مزید ویڈیوز ابھی نہیں ملی ہیں اورفرانزک تجزیہ کے لیے موبائل کو متعلقہ لیبارٹری میں بھیج دیا گیا۔
دوسری طرف مقدمہ کے مدعی محمد کامران نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان سے تیس سے زائد والدین نے رابطہ کر کے اپنے بچوں کے ساتھ اس گینگ کی طرف سے جنسی زیادتی کی شکایت کی۔
تاہم کامران کا کہنا تھا کہ بہت سارے والدین سماجی شرمندگی کے ڈر سے مقدمے میں فریق نہیں بن رہے۔ ’ایک بچہ جو اپنے والد کے ساتھ کل آبپارہ پولیس سٹیشن میں موجود تھا جس نے بتایا کہ ملزم نے چھ بار اس کے ساتھ زیادتی کی
مقدمے کے اندراج کے وقت بھی تھانہ آبپارہ میں درجنوں اہل محلہ کامران کے ساتھ موجود تھے۔
 پاکستان میں بچوں کے ساتھ جرائم کے واقعات
بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے ساڑھے تین ہزار واقعات ہوئے جس میں سے تین فیصد صرف اسلام آباد شہرمیں رپورٹ ہوئے۔

مقدمہ کے مدعی محمد کامران کے مطابق ان سے30 سے زائد والدین نے رابطہ کرکے بچوں کے ساتھ  اس گینگ کی جانب سے جنسی زیادتی کی شکایت کی۔  فائل فوٹو اے ایف پی

ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزے بانو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس طرح کے منظم جرم میں پولیس اہلکار کے ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ والدین اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ بچوں میں جنسی جرائم کے حوالے سے آگاہی پیدا کریں اور انہیں معاشرے میں موجود خطرات کے بارے میں احتیاط سکھائیں۔
بچوں کو بتانا ضروری ہے کہ ان کو کیسے ٹریپ کیا جا سکتا ہے۔اس کے لیے نصاب میں ایسے اسباق شامل کیے جائیں کہ بچے اپنا دفاع کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ قصور اور سوات میں بھی اس طرح بچوں کے خلاف منظم جرائم کے واقعات سامنے آئے تھے مگر آج تک ان کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
 

شیئر: