Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان سے یہ تعلق دولت سے کم نہیں‘

ایک وہ زمانہ تھا جب دنیا کے مختلف شہروں اور ملکوں سے منچلے نوجوان وادی سوات کا رخ کرتے اور فطرت کے نظاروں سے خوب لطف اندوز ہوتے اور انسانیت کے نئے رشتے استوار کرتے تھے۔
پاکستان کے پہاڑ دنیا کے خانہ بدوشوں کے گھر تھے اور امن کے میدان بھی۔ کے ٹو جیسے پہاڑوں کے بیس کیمپ میں عالمی مسافروں (سیاحوں) فطرت پرستوں، فنکاروں، لکھاریوں اور موسیقاروں کے ڈیرے ہوتے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ جیسے تاریخ خلیجی جنگ اور افغانستان کے دہشت زدہ حالات کی طرف چلی گئی تو امن کے ساتھ ساتھ یہ سارے فطرت پرست منچلے بھی سگریٹ کے دھوئیں کی طرح اڑ گئے۔
وہ خوشبوئیں جو خوبصورت وادیوں میں بسا کرتی تھیں، وہ بارود اور اسلحے کی بو میں بدل گئیں اور اس طرح اکیسویں صدی کے موڑ پر پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا۔
 

گراہم کہتے ہیں ڈر پاکستان سے نہیں، پہاڑوں کی مشکلات سے ہونا چاہیے، تصویر: اردو نیوز

اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنے والے کوہ پیما بھی ان حالات کے بعد اپنے اپنے ملکوں کی طرف لوٹ گئے۔
عالمی سطح پر پاکستان کا نام جیسے دلدل میں ڈوب گیا۔ اسے کھینچ کھینچ کر باہر لانے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن یہ مزید دھنستا چلا گیا۔
ایسے وقتوں میں اگر کسی نے پاکستان آنے کی چاہ بھی ظاہر کی تو ان کو ڈرایا گیا، دھمکایا گیا یہاں تک کہ ویزے کا بھی انکار کیا گیا اور اک لمبے عرصے کے لیے قراقرم کے پہاڑ غیرملکیوں کے لیے صرف ایک حسرت بن کر رہ گئے۔ ایسے ہی کچھ مشکل پسند لوگوں میں شامل ہیں آج کل کے مشہور کوہ پیما گراہم زمرمین۔
گراہم جو ایک امریکی کوہ پیما ہیں، انہوں نے پہلی دفعہ پاکستان کو ایک تصویر میں دیکھا جو ترینگو ٹاور کی تھی۔

گراہم نے کئی ملکوں کی چوٹیاں سر کیں لیکن قراقرم آنے کا خواب زندہ رکھا، تصویر: اردو نیوز

ٹرینگو ٹاور دنیا کی سب سے اونچی دیوار نما چٹانوں میں سے ایک ہے جو قراقرم کے علاقے میں بالتورو گلیشیئر کے پاس ہے۔ ان کا پاکستان آنے کا شوق اسی وقت بیدار ہوا۔ گراہم 2000 کے شروع سے پاکستان آنے کی کوشش کرتے رہے لیکن نائن الیون کے باعث بننے والے حالات کی وجہ سے انہیں ویزا نہیں دیا گیا۔
گراہم نے الاسکا، نیوزی لینڈ، جنوبی امریکہ اور کئی ملکوں کی چوٹیوں کو سر کیا لیکن ساتھ ہی قراقرم آنے کے اپنے خواب کو بھی زندہ رکھا اور جب 2015 میں سٹیو سوینسن نے گراہم کو فون کر کے ’کے سکس‘ پار کرنے کی پیش کش کی تو انہوں نے انکار نہیں کیا۔
ان کے چاہنے والوں نے ان کے اس فیصلے پر بہت اعتراض بھی کیا لیکن گراہم نے ان کو اطمینان دلایا کہ ڈر ملک سے نہیں بلکہ پہاڑوں پر پیش آنے والی مشکلات سے ہونا چاہیے۔

گراہم زمرمین کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی پاکستان آتے رہیں گے، تصویر: اردو نیوز

ان کی خوشی اور جوش و خروش کا کوئی اندازہ نہ تھا اور اپنے ایک اور دوست سکاٹ بینیٹ کے ساتھ پاکستان کی طرف چل پڑے اور ’کے سکس‘ کی مغربی طرف سے نیا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس کی چوٹی کو سر کیا۔
گراہم ایک کوہ پیما ہونے کے ساتھ ساتھ فلم کاری کا شوق بھی رکھتے ہیں اور بڈروک فلمز کے نام سے اپنا ایک سٹوڈیو بھی چلاتے ہیں، وہ پہاڑوں اور کوہ پیمائی سے متعلق موضوعات پر ہی کام کرتے ہیں۔ وہ اپنا یہ شوق قراقرم کے مشکل پہاڑوں پر بھی ساتھ لے کر گئے۔
2017 میں گراہم نے ایک بار پھر سٹیو سوینسن کے ساتھ پاکستان کا رخ کیا اور اس بار لنک سر کو سر کرنے کے ارادے سے آئے مگر موسمی مشکلات کی وجہ سے سر نہ کر سکے۔

گراہم نے پاکستانی چوٹی ترینگو ٹاور کی تصویر دیکھی اور سر کرنے کا ارادہ کیا، تصویر: اردو نیوز

گراہم نے اپنے شوق قراقرم کو زندہ رکھتے ہوئے ایک بار پھر لنک سر کا رخ کیا اور 5 اگست 2019 کو لنک سر کی چوٹی کو جا چھوا۔ قراقرم سے واپسی پر جب گراہم اسلام آباد آئے تو انہوں نے انتہائی دلچسپ انداز میں ’اردو نیوز‘ کے ساتھ بات چیت کی۔
اپنے پہاڑوں کے شوق کے ساتھ ساتھ ان کو جس چیز میں دلچسپی نظر آئی، وہ ہے پاکستان کی وسیع اور رنگوں سے بھری ثقافت، انہوں نے پاکستان میں رہ کر نہ صرف دور دراز کے دیہات کی سیر کی بلکہ شہروں میں بکھرے ثقافتی رنگوں نے بھی انہیں بہت متاثر کیا۔
ان کا خیال ہے کہ اسلام آباد کی زندگی اور امریکی شہروں کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں۔

نائن الیون سے قبل پاکستان کے پہاڑ غیر ملکی سیاحوں کا مسکن ہوتے تھے، تصویر: اردو نیوز

اس سال گراہم نے پاکستان کے تین سفر کیے اور دور دراز علاقوں کے لوگوں کے ساتھ وقت گزار کر انہوں نے محسوس کیا کہ وہ کس قدر سادہ اور پرخلوص زندگی گزار رہے ہیں۔
اس دوران ان لوگوں کے ساتھ گراہم کا ایسا تعلق بنا جسے وہ اپنے لیے کسی دولت سے کم نہیں گردانتے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تعلق قائم رہے گا اور وہ پاکستان آتے رہیں گے۔

شیئر: