عابد علی، ہم آپ کو الوداع کہتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ رہتی دنیا تک آپ کی شخصیت اور آپ کا بے مثل کام، ہمارے زخموں پر مرہم لگانے کا کام کرتا رہے گا۔
عابد علی، پاکستان کے نامور اور لیجنڈ اداکاروں میں سرفہرست ہیں۔ ان کا کام، ان کی شخصیت کئی دہائیوں سے ہم سب کے لیے ایک قابل قدر مثال بنی رہی۔ جب تک پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری باقی ہے تب تک اس عظیم اداکار کا نام بھی باقی رہے گا، بلکہ شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ عابد علی، فنکارانہ عظمت کا ایسا روشن مینار ہیں، جو دراصل اردو ڈرامہ کی پہچان ہے۔
مزید پڑھیں
-
مرزا غالب کا خط مرزا گلبدن کے نامNode ID: 431966
-
’اچھا تو اپنی ضمانت تم خود ہو۔۔چل بھاگ‘Node ID: 432141
-
بلا جو پیدا تو ہوتی ہے مگر ختم نہیں ہوتیNode ID: 432281
آج ہماری ٹی وی انڈسٹری خوب پھل پھول رہی ہے، لاتعداد اداکاروں کے بے شمار ڈراموں نے مداحوں کو گھیر رکھا ہے، فن اداکاری میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ نت نئی ترقی ہورہی ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے لیجنڈری اداکار اور ان کے یادگار ڈرامے بھلانا ممکن نہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ آج ٹی وی ڈرامہ اور سیریز، فلم اور اینی میشن سمیت ویب سیریز کی بہتات ہے، لیکن وہ کون سی چیز ہے جس نے آج بھی ہمیں پرانے ڈراموں اوراداکاروں کادلدادہ بنا رکھا ہے؟ یہ سوال اکثر دل میں ابھرتا ہے، پھر خیال آتا ہے کہ یہ دلچسپی اس خلوص اور سادگی کا نتیجہ ہے، جو چند دہائی پہلے اردو ڈرامہ کا حصہ تھی۔ معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتے ڈرامے، ہمارا طرہ امتیاز تھا اور اس پر جاندار اداکاری اور سلیس و شستہ اردو زبان میں ادا کیے جانے والے مکالمے، دل موہ لینے کی صلاحیت کے حامل تھے، آج دو دہائی پہلے کا ڈرامہ دیکھنے کا موقع ملے تو آپ کو ان میں ایک نفیس انداز تکلم اور جذبہ احترام کی جھلک بے حد حیران کن اور متاثر کن محسوس ہوگی۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36491/2019/abid-ali-with-wife.jpg)
عابد علی کا تعلق بھی اردو ڈرامہ کے اسی سنہری دور سے ہے، بلکہ عابد علی کی شخصیت نے اس دور کو سنہری بنانے میں مرکزی کردار ادا کیاہے۔ ہمیں عابد علی پر فخر ہے، ان کی آواز، ان کی شخصیت اور فن اداکاری پر ان کی دسترس ایک ایسا سرمایہ ہے جو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ادب و فنون سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے تحفہ ہے۔ فن یوں بھی سرحدوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ عابد علی کا فن ان کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ وہ ٹی وی اسکرین پر نہیں بلکہ ہمارے دل کی گہرائیوں میں امر ہوچکے ہیں اور یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو بہت کم اداکار حاصل کرپاتے ہیں۔
عابد علی کا انتقال، ہم سب کے لیے ایک دلی صدمہ ہے، وہ اپنے کام کے ذریعہ کئی دہائیوں سے ہمارے گھروں کا حصہ تھے، ان کی اداکارانہ صلاحیت، ان کی شخصیت اور ان کی منفرد آواز، ہر خوبی جیسے بے مثل تھی، اب جبکہ وہ نہیں رہے، خیال آتا ہے کہ ان کی کمی ہمیشہ ایک خلا بن کر ان کی غیر موجودگی کا احساس دلاتی رہے گی۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36491/2019/abid-ali-dasht.jpg)
عابد علی نے اپنے طویل فنی زندگی میں لاتعداد یادگار اور منفرد کردار نبھائے، مگر میرے لیے وہ ہمیشہ دشت کے شاہ صاحب رہیں گے۔ اس کردار میں عابد علی نے اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے ہیں جو لازوال ہیں۔ دشت عابد علی کی ہدایتکارانہ صلاحیتوں کا بھی شاہکار ہے، یہ ڈرامہ منو بھائی نے لکھا تھا۔ عتیقہ اوڈھو، نعمان اعجاز، عابد علی نے گویا اسی ڈرامہ میں اپنی زندگی کے بہترین کردار ادا کیے، دشت میں بالاج، شاہ تاج اور شاہ صاحب کا کردار جیسے محبت اور خلوص کی معراج نظر آتا ہے۔
ڈرامہ کے ایک منظر میں عابد علی اپنے کردار میں ڈوبے ہوئے، دل کو چھو جانے والی آواز میں کہتے ہیں، ”فتح طاقت کی نہیں ہوتی، طاقت کے صحیح استعمال کی ہوتی ہے اور طاقت کا صحیح استعمال یہ بھی ہے کہ طاقت استعمال نہ کی جائے۔ اخلاقی فتح سب سے بڑی فتح ہے۔“
محبت اور عداوت کی اس داستان میں عابد علی، نفرت کو محبت سے مات دینے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ایک فنکار بھی دراصل، یہی کام کرتا ہے۔ تکلیف، دکھ، غم، روز مرہ زندگی کی مشکلات اور ناکامی پر نالاں، افراد کی زندگی کو اپنے کردار کے ذریعہ خوشی اور محبت کے لمحات عطا کر کے، جینے کی کوشش جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔
ہمارے پیارے عابد علی، ہم آپ کو الوداع کہتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ رہتی دنیا تک آپ کی شخصیت اور آپ کا بے مثل کام، ہمارے زخموں پر مرہم لگانے کا کام کرتا رہے گا۔