دلی کی قیادت کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس کے قلب میں آزاد مسلم ریاست ہو۔ فوٹو: وکی پیڈیا
انڈیا خواہ کتنا ہی امن پسند ملک کیوں نہ ہو لیکن اس کی گذشتہ ایک سو برس کی تاریخ بہت ہی خون آشام رہی ہے اور تقسیم کا دور اس کا سب سے پر تشدد باب ہے، جس میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کی جانیں فسادات کی نذر ہوئیں۔
یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا اور ایک سال بعد حیدرآباد کی آزاد ریاست میں کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ تقسیم کے وقت انڈیا میں تقریباً 500 آزاد شاہی ریاستیں تھیں جن کا حکومت برطانیہ کے ساتھ اتحاد تھا لیکن انگریزوں نے انڈیا کو آزاد کرتے وقت ان ریاستوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ انھیں اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہیں تو انڈیا کے ساتھ الحاق کر لیں یا پھر نوزائیدہ ملک پاکستان کے ساتھ مل جائیں۔
لیکن حیدرآباد کی مسلم حکومت نے آزاد رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 15 اگست 1947 کے دن خود کو آزاد ریاست قرار دیا۔ اس فیصلے نے انڈیا کے بہت سے رہنماؤں کو برہم کر دیا جن میں انڈیا کے اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی شامل تھے۔
انڈیا کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ وہ کسی بھی فریق کو قابل قبول نہیں تھی۔ مغرب میں مغربی پاکستان تھا تو مشرق میں مشرقی پاکستان جو بعد میں بنگلہ دیشن کے نام سے الگ ملک بن گیا۔
ایسے میں دہلی کی قیادت کو یہ گوارا نہ تھا کہ انڈیا کے قلب میں بھی ایک آزاد مسلم ریاست ہو جبکہ کشمیر کا خطہ پہلے ہی بڑے تنازع کا باعث تھا۔
بہرحال انڈیا نے 13 ستمبر 1948 کو حیدر آباد کو اپنی ریاست میں شامل کرنے کے لیے حملہ کر دیا اور اس مشن کو ’آپریشن پول‘ یعنی حیدرآباد میں پولیس کارروائی کا نام دیا گیا۔
حیدر آباد ہر چند کہ مسلم ریاست تھی لیکن وہاں کی اکثریتی آبادی ہندو مذہب کی ماننے والی تھی۔ تلنگانہ تحریک نے نظام حیدرآباد عثمان علی خان، آصف جاہ ہفتم کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنی فوج کو مستحکم کریں۔
اس افراتفری کے دوران یہ افواہ گشت کرنے لگی کہ نظام حیدرآباد، گوا میں پرتگالیوں اور پاکستان کی مدد سے خود کو مسلح کر رہا ہے۔ اس خبر پر سردار پٹیل نے کہا کہ انڈیا میں ایک آزاد حیدرآباد کا تصور ’انڈیا کے قلب میں ایک ناسور کی طرح ہے جسے جراحی کے ذریعے ہٹانے کی ضرورت ہے۔‘
انڈیا نے حیدرآباد کو اپنی ریاست بنانے کے لیے 36 ہزار مسلح فوج اتار دی جبکہ دوسری جانب نظام حیدر آباد جو کہ دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں تھی لیکن اس کے پاس صرف 24 ہزار فوج تھی اور اس میں بھی پوری طرح سے تربیت یافتہ فوجیوں کی تعداد تقریباً چھ ہزار تھی۔ ان میں عرب، روہیلا، پٹھان اور دیگر مسلمان شامل تھے۔ نظام کی فوج تین حصوں میں منقسم تھی، اس میں گھڑسوار، پیدل اور توپ خانے والے فوجی شامل تھے۔
اس کے علاوہ ریاست کے پاس تقریباً دو لاکھ جنگجو تھے جس کی کمان قاسم رضوی کے ہاتھ میں تھی۔ یہ غیر تربیت یافتہ جنگجو رضاکار کہلائے جاتے تھے۔
انڈین حکومت کی جانب سے حملے کے بعد انڈین فوج نے مختلف اطراف سے محاذ کھول دیے۔ مغرب میں وجے واڈا اور مشرق میں شعلہ پور پر توجہ مرکوز کی جبکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں حیدرآباد کی فوج کے خلاف کارروائی کی گئی۔
13 ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ صرف پانچ دنوں میں ختم ہو گئی اور نظام حیدرآباد نے 17 ستمبر کی شام جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ 18 تاریخ کو انڈین فوج حیدرآباد میں داخل ہو گئی اور نظام کے عرب نژاد کمانڈر ان چیف جنرل الادروس نے ہتھیار ڈال دیے۔
ایک اندازے کے مطابق اس دوران ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور فسادات کے کئی واقعات رونما ہوئے۔ یہاں تک کہ انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے فوجیوں کی جانب سے لوگوں کو قطاروں میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے کی اطلاعات کے بعد فوجی کارروائیوں کی تحقیقات کے لیے سندر لال کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی۔
اس کمیٹی کی رپورٹ شائع نہ ہونے کے سبب یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حیدر آباد میں کتنی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ سرکاری طور پر تو یہ کہا گيا کہ انڈیا کے 32 فوجی ہلاک اور 97 زخمی ہوئے تھے جبکہ حیدرآباد کی جانب سے 490 ہلاک اور 122 زخمی ہوئے۔ اب جبکہ پنڈت سندر لال کی رپورٹ سامنے آ چکی ہے اور اس میں یہ کہا گیا ہے کہ 27 ہزار سے 40 ہزار کے درمیان لوگ مارے گئے تاہم بعض دیگر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انڈیا کی کارروائی اور اس کے نتیجے میں پھوٹنے والے فسادات میں دو لاکھ سے بھی زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
سندر لال رپورٹ میں کہا گيا کہ ’ہمارے پاس ناقابل تردید ایسے شواہد ہیں کہ فوج اور پولیس نے لوٹ مار کے علاوہ دوسرے جرائم بھی کیے۔ یہاں تک کہ فوج نے ہندوؤں کو مسلمانوں کی دُکانوں اور مکانوں کو لوٹنے کے لیے کہا۔‘
مسلمانوں کی حالت کا ذکر گذشتہ سال لاؤمنٹ میں شائع ہونے والی سید عامر شاہ کی روداد میں بھی ملتا ہے۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گاؤں سے نکل کر بارش میں 30 کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے ضلع بیدر اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں پہنچے تھے۔ عامر شاہ نے کہا انھیں بتایا گیا کہ ’وہ پولیس والے ہیں لیکن دراصل انڈین فوج کے حمایت یافتہ غنڈے تھے، چونکہ مسلسل بارش ہو رہی تھی اس لیے ہم لوگ بیدر پہنچ سکے۔‘