’میرا نام کامل شاہ ہے۔ میری عمر 30 سال ہے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر 16 سال تھی اور میں سکول میں پڑھتا تھا۔ جب میرے ایک قریبی دوست عبدالغفور کو مرگی کی بیماری تھی۔ قندھار میں ایک مشہور حکیم تھا جس کے پاس مرگی کا علاج تھا۔ ہم ابھی بازار میں تھے کہ اچانک فوجی آ گئے اور ہمیں اٹھالیا۔ دو تین دن افغان فوجیوں کی قید میں رہے۔ وہ ہمیں کہتے تھے کہ تم طالب ہو، القاعدہ ہو۔ ہم نے کہا کہ آپ یہ بات کیسے کر سکتے ہیں، آپ کے پاس اس چیز کا کیا ثبوت ہے؟ کیا آپ نے ایسی کوئی سرگرمی دیکھی ہماری؟
کامل شاہ نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا: ’پھر وہ کہتے تھے یہ بتاؤ پاکستان سے تمہیں بھیجا گیا ہے اگر تصدیق کر دو تو ابھی چھوڑ دیں گے۔ اس کے بعد آنکھیں بند کر کے ہیلی کاپٹر میں بٹھایا اور کسی نامعلوم جگہ لے گئے۔ ایک واش روم کے برابر جگہ تھی جہاں 36 دن تک قید رکھا۔ دن کے وقت بیٹھنے بھی نہیں دیتے تھے، رات کو ساری رات کوئی آلہ لگاتے تھے جس سے ایسی آوازیں نکلتی تھیں کہ سویا نہیں جاتا تھا۔‘
’پانچ سے چھ گھنٹے تفتیش کرتے تھے، بندوقوں کے بٹ مارتے تھے اور ایک ہی طرح کے سوال کرتے تھے کہ بتاؤ اسامہ بن لادن کدھر ہے اور آپ کو پاکستان سے کس نے بھیجا؟ اس کے بعد قندھار جیل بھیجا پانچ چھ مہینے ادھر رکھا اور یہی تفتیش کی جاتی۔ میرے پاس کچھ بتانے کو تھا نہیں میری عمر بھی چھوٹی تھی پھر کہتے سچ بتاؤ ورنہ کیوبا بھیج دیں گے۔ میں نے کہا بس یہی کچھ ہے جہاں مرضی بھیج دو اس کے بعد بگرام جیل بھیج دیا گیا۔‘
کامل شاہ ان 43 پاکستانی قیدیوں میں سے ایک ہیں جن کو 2014 میں افغانستان کی مشہور زمانہ امریکی بگرام جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
ان کا تعلق پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان سے ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ پچھلے پانچ سالوں میں لاہور مزدوری کے لیے آ جا رہے ہیں۔ وہ جب بگرام جیل میں تھے تو ہمت ہار چکے تھے کہ شاید کبھی وہ وہاں سے نہ نکل سکیں۔ اب جبکہ وہ اس قید میں نہیں ہیں تو زندگی کے قیمتی سال جیل میں گزارنے کے بعد اب روزگار کی تگ و دو میں ہیں۔
بگرام جیل
بگرام جیل کو دوسرا گوانتاناموبے بھی کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان میں امریکہ کے سب سے بڑے ہوائی اڈے یعنی بگرام ائیر بیس تھا جسے ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا اور اس میں ایک وقت میں 32 سو کے لگ بھگ قیدیوں کو رکھا گیا۔
اس جیل کے قیدیوں میں زیادہ تر کا تعلق افغانستان، پاکستان اور عراق سے تھا۔
قیدیوں کو کسی بھی قسم کے قانونی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
پاکستان کے 43 قیدیوں کی اس جیل سے رہائی کو آج پورے پانچ سال گزر چکے ہیں۔ ان قیدیوں کے لیے کام کرنے والی پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم ’جسٹس پراجیکٹ پاکستان‘ نے ان قیدیوں کی رہائی کے بعد ان کے شب و روز پر رپورٹ جاری کی ہے۔
قید کے بعد کی اذیت
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی طرف سے 70 صفحات پر مبنی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ جس میں ایسے 11 قیدیوں کی کہانیاں شامل ہیں جن کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں لیا گیا اور دوران قید ان پر تشدد کیا گیا۔
رپورٹ اس چیز کا بھی احاطہ کرتی ہے کہ کیسے جسمانی اور ذہنی تشدد سے گزرنے والے یہ افراد اب نارمل زندگی گزارنے کے لیے ایک دوسری طرح کی تگ و دو کر رہے ہیں۔
کامل شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’اس وقت میرا سب سے بڑا مسئلہ ایک مستقل ذریعہ آمدن ہے کیوںکہ میرا تعلق ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے ہے جہاں روزگار بہت مشکل ہے۔ اب میری شادی ہو چکی ہے، میری بیوی اور بچے کوہستان میں ہی ہیں اور میں محنت مزدوری کے لیے لاہور آتا ہوں۔ کچھ عرصہ کام کر کے واپس چلا جاتا ہوں اور دو مہینے گھر والوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ ہر کسی کو اپنی کہانی نہیں بتا سکتے کیوںکہ جب لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ امریکی قید سے رہا ہوئے ہیں تو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؎
آئین و قانون سے ماورا انسان
جسٹس پراجیکٹ کی رپورٹ میں جہاں اور بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے وہیں سب سے بڑھ کر ایک ایسے انسانی المیے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو سراسر پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر بسنے والے انسانوں سے متعلق ہے۔
رپورٹ کے مطابق جو لوگ کسی بھی طریقے سے امریکی قید میں آئے اور ان کا تعلق اس وقت کے فاٹا کے علاقے سے تھا ان پر کسی بھی قسم کا قانون لاگو نہیں ہوتا تھا۔ ایف سی آر کے باعث یہ افراد پاکستان کے اپنے عدالتی نظام کے دائر کار میں بھی نہیں آتے تھے۔
رپورٹ میں پاکستانی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ کیسے ریاست اپنے شہریوں کی حفاظت میں ناکام رہی اور انہیں لیگل کور بھی فراہم نہ کر سکی۔ جس کی وجہ سے ان کے انتہائی بنیادی حقوق جس میں منصفانہ ٹرائل بھی شامل ہے وہ بھی ان کو نہ مل سکا۔
بغیر کسی فرد جرم کے ان قیدیوں کو 11 سال تک قید رکھا گیا۔ اسی طرح سے امریکی جیل میں بھی ان کو تمام انسانی حقوق جو جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدیوں کو ملتے ہیں، ان سے بھی محروم رکھا گیا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ ایسے قیدی تھے جن کو کوئی ملک بھی اپنا نہیں رہا تھا۔
کامل شاہ نے بتایا کہ ایک دفعہ پاکستانی سفیر سے ان کی ملاقات کروائی گئی جنہوں نے صرف یہ نصیحت کی کہ وہ جیل میں حکام سے تعاون کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی وجہ یہ تھی کہ اذیتوں سے قیدی نڈھال تھے اور زیادہ تر لوگ تو مرنے کی دعا کرتے تھے اس میں شور کرنا اور جیل حکام کی باتیں نہ ماننا شامل تھیں۔ ایسے میں انہیں مزید تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا اس لیے پاکستانی سفیر کو بھی بلایا گیا جس نے حکام سے تعاون کرنے کی تلقین کی جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ان کی رہائی کے لیے کچھ کر رہے ہیں تو انہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔‘
کامل شاہ نے بتایا کہ چونکہ وہ کوہستانی زبان بولتے تھے لہذا جب ایک دفعہ ان کی گھر والوں سے بات کروائی گئی تو مترجم صرف اردو زبان سمجھ سکتا تھا اس لیے انہیں کوہستانی زبان میں والدہ سے بات نہ کرنے دی گئی ان کو بہت سمجھایا کہ میں تو ہلکی پھلکی اردو بول لوں گا لیکن میری والدہ اردو نہیں سمجھ سکتی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دس منٹ کی کال خاموشی سے ہی گزر گئی کیوںکہ وہ کوہستانی میں بات نہیں کرنے دیتے تھے۔‘