ہم میں سے اکثر نے سوشل میڈیا پر کپڑوں، جوتوں، مصنوعی جیولری یا پھر معمول کے استعمال کی الیکٹرونک اشیا کی تصاویر دیکھیں اور انھیں فوراً خریدنے کا ذہن بنایا اور آرڈر بھی دے دیا۔ مقررہ دن پر کورئیر کمپنی کا نمائندہ پارسل تھمانے سے پہلے رقم وصول کرکے چلتا بنا۔
آن لائن شاپنگ کے تجربے کے جوش میں جب پیکٹ کھلا تو دل ٹوٹ گیا کیونکہ جو تصویر دیکھ کر چیز منگوائی گئی اور جو چیز موصول ہوئی دونوں کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
بعض اوقات تو برینڈڈ ٹی شرٹ منگوانے والے کو بنیان موصول ہوتی ہے اور لوگ سوشل میڈیا پر شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آن لائن کاروبار کسی ضابطے کے تحت نہیں چلتا اور دنیا کی بڑی آن لائن کمپنیاں ایمزون، ای بے اور علی بابا اپنی مکمل خدمات پاکستان میں فراہم نہیں کر رہیں۔
اسی وجہ سے پاکستان کی وفاقی حکومت نے پہلی ’ای کامرس پالیسی‘ تیار کی ہے جسے آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں منظور کر لیا گیا ہے۔
اس وقت آن لائن شاپنگ کا رجحان اس قدر بڑھ رہا ہے کہ امریکہ میں بڑے بڑے سٹور بند ہو رہے ہیں یا ان سٹورز نے آن لائن شاپنگ متعارف کرا دی ہے۔
دنیا بھر میں 2017 میں آن لائن شاپنگ کا حجم 29 ٹریلین تھا جبکہ آن لائن صارفین کی تعداد میں 12 فیصد اضافے کے ساتھ ایک ارب 30 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
’اردو نیوز’ کو دستیاب پالیسی مسودے کے مطابق ’پاکستان میں اس وقت 16 کروڑ سے زائد لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ سات کروڑ 20 لاکھ لوگ براڈ بینڈ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ 76 فیصد سے زائد آبادی کو ٹیلی فون کی سہولت دستیاب ہے۔
پالیسی مسودے میں بتایا گیا ہے کہ اس کے باوجود ای کامرس ابھی تک نوزائیدہ سٹیج پر ہے لیکن مقامی ای کامرس پلیٹ فارمز، آن لائن وینڈرز اور مختلف بینکوں اور موبائل کمپنیوں کی جانب سے آن لائن پیمنٹ کے رجحان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ای کامرس کا ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے۔
سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق کیش آن ڈیلیوری کے بغیر جون 2018 تک 18 ارب 70 کروڑ روپے کی ای کامرس ہوئی جبکہ 2018 میں پاکستان کی ای کامرس کا کل حجم 99 ارب 30 کروڑ روپے ہے۔
سال 2018 میں ای کامرس مرچنٹس کی تعداد 496 سے 1094 تک پہنچ گئی جبکہ سال 2019 کی پہلی سہہ ماہی میں یہ تعداد 1242 ہو چکی ہے۔ ای کامرس مرچنٹس کی کی جانب سے آن لائن ادائیگیوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔
ای کامرس میں مقابلے کے رجحان کو فروغ دینے، مقامی ای کامرس وینڈرز کو عالمی سطح پر رسائی دینے اور صارفین کے اعتماد پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ ہونے دینے کے لیے اقدامات ضروری سمجھے گئے۔
ان اقدامات کے لیے وزیر اعظم نے ای کامرس پالیسی بنانے کی ہدایت کی۔ کامرس ڈویژن نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ابتدائی مسودہ جون میں کابینہ میں پیش کیا جس پر کابینہ نے مزید کام کرنے کی ہدایت کی۔ مزید سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد حتمی مسودہ تیار کیا گیا ہے۔
پالیسی میں اہم اقدامات تجویز کیے گئے جن کے تحت مختلف شعبوں میں قانون سازی کرتے ہوئے مقامی اور عالمی تجارت قوانین میں ہم آہنگی پیدا کی جائے گی۔ ای کامرس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل ای کامرس کونسل قائم کی جائے گی۔
ای کامرس پالیسی مسودے کے تحت آن لائن بزنس کو بھی ایس ای سی پی میں رجسٹر کرانا ہوگا۔ ای کامرس کو بروئے کار لاتے ہوئے برآمدات کو بڑھایا جائے گا، جس سے ملک میں روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
پاکستان کے قوانین کو ڈیجیٹل ماحول سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ملکی اور غیرملکی ٹرانزیکشنز کے لیے موثر ای پیمنٹ انفرا سٹرکچر کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ ادائیگیوں کے لیے بین الاقوامی گیٹ وے قائم کرنے کی تجویز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح پالیسی میں آن لائن کاروبار کو لازمی ایس ای سی پی میں رجسٹر کرنے کی تجویز ہے جبکہ ناکارہ اشیاء کو ری ایکسپورٹ کے لیے اجازت دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
دھوکہ دہی کی روک تھام کا نیا مکینزم بنایا جائے گا جو مرچنٹس اور صارفین کے نقصانات کو کم کرنے میں مدد اور تحفظ فراہم کرے گا۔
کمپنیز ایکٹ، 2017 اور ضروری قواعد میں ضروری ترمیم اور ضابطہ طے کرکے صوبائی سیلز ٹیکس کے مقاصد کے لیے آن لائن کاروبار کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ڈبل ٹیکس سے بچنے اور جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) سمیت ٹیکس کے طریقہ کار کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
مسودے کے مطابق ای کامرس کا پالیسی کے مقاصد میں ملک میں کاروبار کی لاگت کو کم سے کم رکھتے ہوئے مقامی ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دیا جانا شامل ہے۔ نوجوان نسل بالخصوصی دور دراز کے نوجوانوں کو با اختیار اور معاشی لحاظ سے خود مختار بنانے کے لیے نہ صرف ای کامرس کاروبار کے لیے کنیکٹویٹی یقینی بنائے جائے گی بلکہ ان کو آگاہی، تربیت اور وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔
پالیسی کے تحت ای کامرس کے شعبے میں احتساب اور شفافیت کو بھی یقینی بنانے جیسے اقدامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں