لبنان،شام اور یمن کے موجودہ حالات میں قدر مشترک کیا ہے؟
لبنان،شام اور یمن کے موجودہ حالات میں قدر مشترک کیا ہے؟ ایران کی مداخلت ان تینوں ملکوں میں بنیادی سبب ہنگامے بنے۔
الشرق الاوسط میں عبدالرحمان راشد نے اپنے کالم میں لکھا کہ لبنان میں سیاسی خلا اور خانہ جنگی ایران کی پیدا کردہ تھی جس نے وہاں حزب اللہ قائم کی جب کہ شام میں حکومت دگرگوں تھی۔ ایران نے اسے بچانے کے لیے اس وقت مدد کا ہاتھ بڑھایا جب وہ گرنے کے قریب تھی او ر اب وہ وہاں اقتدار میں شریک ہے ۔یہی حال یمن کا بھی ہے جب عرب اسپرنگ کے دوران وہاں علی عبداللہ صالح کی حکو مت کا خاتمہ ہوا تو ایرانیوں نے اپنے ہم مسلک حوثیوں کی پشت پناہی کی۔ ان کا مقصد وہاں حکومت پر قابض ہونا تھا۔ اس ضمن میں ایران نے عالمی سمجھوتوں اور قوانین کی پروا نہ کی جس میں یمن میں انتقال اقتدار کے لیے انتخابی عمل کو ترجیح دی گئی تھی۔
اب باری عراق کی ہے،جو ممکنہ شکار بن سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں وہاں ہونے والے احتجاجی مظاہرے خلفشار کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ایرانی فورسز سرحدوں پرجمع ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ کسی بھی طریقے سے دارالحکومت بغداد پر قابض ہو جائیں۔
اگر عادل عبدالمہدی کی حکومت نے ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا یا وہ مستعفی ہوجائیں تو اس صورت میں عراقی پارلیمنٹ میں ایران کی اتنی آوازیں ہیں جو اس کے مقاصد کے لیے کافی ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس اقدام کے لیے ہمت کر سکے گا؟۔
تہر ان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وہ داخلی اور خارجی قوتوں کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی قوت یا طاقت نہیں رکھتا ۔دوسری جانب امریکہ کے لیے عراق ایک اہم اسٹریجک ملک ہے وہاں اس کی محدود عسکری قوت ہے جوجنگ کی خواہاں نہیں جبکہ ایران کے اہداف میں عراق کو دباﺅ کے حربے کے طور پر واشنگٹن او ر دیگر علاقوں کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اوپر لگی پابندیوں کو ختم کرانے کا خواہاں ہوگا ۔
عراق ہمیشہ سے ہی ایران کے لیے مرغوب رہا ہے۔ وہ وہاں اپنی جغرافیائی اور مسلکی توسیع پسندانہ عزائم کا خواہاں ہے جبکہ عراق اس کے نزدیک شام ، لبنان اور یمن سے بڑا مال غنیمت ہے۔ وہاں اب ایسا باقی بھی نہیں رہا جو اسے اس کے ارادوں سے روک سکے ۔بین الاقوامی ردعمل بھی سر د پڑ چکا ہے۔ اس حوالے سے ایران اس جانب متعدد مرتبہ تجربات بھی کر چکا ہے۔ یورپی ممالک کی جانب سے ایرانی خفیہ ایجنسیوں کی مہم جوئی اور دہشت گردی کی کارروائیوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا جبکہ جرمنی مستقل طور پر اس کا دفا ع کرتا رہا ہے۔ فرانس کی جانب سے اس پر عائد پابندیاں ہٹائے جانے کے لیے ثا لثی کی کوششیں کرتا رہا ۔
برطانیہ نے یہ واضح کیا کہ اس نے عدالتی فیصلوں کے موجب تہران کو ڈیڑھ ارب ڈالر دیے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی نظر آئندہ عام انتخاب پر ہے۔ اس کے باعث وہ ایران کے ساتھ کسی تنازع میں الجھنا نہیں چاہتے جبکہ روس نے چھڑی درمیان سے پکڑی ہوئی ہے ۔یہی حال علاقائی قوتوں کا ہے جو حالات کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہیں جن میں مصر ،پاکستان شامل ہیں۔ ترکی جو کہ شام میں شکست کھا چکا ہے ۔ سعودی عرب کو بھی مختلف محاذوں کا سامنا ہے۔
یقینی طور پر ایران کا جارحانہ سلوک وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے مشکل ثابت ہوگا۔ یہاں تک کہ ان ممالک کے لیے جو اس معاملے کو ٹھنڈا کے خواہش مند ہیں۔ مثال کے طور پر یورپی یونین لیکن خدشہ ہے کہ اس وقت تک عراق کے لیے پانی سر سے اوپر ہو چکا ہوگا ۔ ایران کی کوشش ہے کہ وہ وہاں سیاسی نظام کو تہ و بالا کردے۔ اس کادعوی ہے کہ یہ نظام امریکاکی پیداوار ہے۔ وہ اس کی جگہ لے کر قم میں موجود اپنے مرشد اعلی کی فرقہ وارانہ سوچ کو لاگو کرنا چاہتا ہے۔
خطے کے امن وسلامتی کے لیے عراق میں قیام امن انتہائی ضروری ہے۔ اس کے قرب و جوا ر میں کوئی ایسا ملک نہیں جو یہاں خرابی و بربادی پیدا کرنے کا خواہاںہوں لیکن صرف ایران کے ایسے منصوبے ہیں جن پر وہ گزشتہ عرصے سے عمل پیرا ہے ۔ عراق کے سرکاری ادارے اس معیار کے نہیں کہ وہ اپنی عوام کے لیے بہتر ماحول جس کی وہ برسوں سے خواہش کرتے ہیں مہیا کرسکیں ۔
امریکیوں نے وہاں جمہوری اداروں کے قیام کے لیے بہت کچھ کیا اور عوام میں آزادی کے تصورات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ عوام میں آزادی کے نظریے کو اجاگر کیا تاہم لوگوں کی معاشی زندگی میں ٹہراﺅ اور استحکام لانے میں ناکام رہا لیکن بعض دینی عناصر نے اپنے مقاصد اورمسالک کی توسیع کے لیے ملک میں انارکی اور فساد کو فروغ دیا۔
عراق آج ایک مشکل امتحان سے گزر رہا ہے کیونکہ ان مظاہروں سے صورتحال بہتر ہونے کی امید نہیں ہے جس کے خواہاں عراقی ہیں۔ یہ مظاہرے ملک کے امن اور سلامتی نقصان دہ ہیں۔ یہ ان قوتوں کے لیے معاون ثابت ہوں گے جو وہاں اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔