بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان عموماً اپنی افتاد طبع کے اسیر ہو ا کرتے ہیں، تجربے یا تجزیے کی اسیری شاذ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ رئیس امروہی نے شاید اسی لیے کہا تھا کہ؛
اپنی افتاد طبع کیا کہیے!
وہی دیرینہ دل کی بیماری
مقبول ترین ہوں یا طاقتور ترین، افتاد طبع کے ہی اسیر ہوا کرتے ہیں۔ سیاست کی رام کہانیاں ہوں یا ایوان اقتدار کی بل کھاتی راہداریاں ’وہی دیرینہ دل کی بیماری‘ لیے پھرتے ہیں۔ عوام کو البتہ شانتی کا درس اور سنہرے مستقبل کی نوید دیتے رہنا ان کا مزاج ہے۔
مزید پڑھیں
-
ٹرمپ کے شکریے کا مطلب کیا ہوگا؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 886820
-
رولز آف دی گیم کیسے بدلیں گے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 887117
-
سیاسی اتفاق رائے نامی ناٹک! اجمل جامی کا کالمNode ID: 887414
مزاج اور افتاد طبع میں باریک فرق ہوا کرتا ہے لیکن یہ کہانی پھر سہی۔ سرِ دست افتاد طبع کے کارن درپیش سیاسی منظر نامہ موضوع بحث ہے۔ کیونکہ رئیس امروہی مذکورہ غزل میں مزید فرماتے ہیں کہ؛
دل کئی روز سے دھڑکتا ہے
ہے کسی حادثے کی تیاری
جان لیوا سہی جراحت عشق
عقل کا زخم ہے بہت کاری
بیرسٹرگوہر، سلمان راجہ پر برہم ہیں تو سلمان راجہ بیرسٹرگوہر پر، گنڈا پور ون مین شو رچائے ہوئے ہیں تو سواتی قرآن اٹھانے پر مجبور، علیمہ خانم بھائی سے ملنے کو بیتاب ہیں تو علی ظفر و دیگر فہرست میں نام نہ ہونے کے باوجود شوق حاضری پورا کرنے میں مصروف، سوشل میڈیا بے چین ہے تو روایتی میڈیا سب اچھے کا راگ الاپ رہا ہے۔ کارکن قیادت پر شاکی ہے تو قیادت تذبذب کا شکار۔ باہر بیٹھے غداری کے فتوے بانٹ رہے ہیں تو اندر بیٹھے اظہار لاتعلقی کے عذر ڈھونڈنے میں مصروف۔ اس عجب دھما چوکڑی میں پھر عجب لہجے کا سریلا شاعر اکرام عارفی یاد نہ آئے تو اور اور کیا یاد آئے؛
اک دھما چوکڑی ہے سینے میں
یہ کہیں بے لگام دل تو نہیں
زندگی اور دل برابر ہیں
زندگی کا غلام دل تو نہیں

ووٹر سپورٹر ووٹ کے لیے تو یقیناً نکلے گا لیکن احتجاج کی سیاست نے اسے قدرے تھکا سا دیا ہے، وجہ دستیاب قیادت کی ناقص حکمت عملی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بے پناہ مقبولیت ہونے کے باوجود کپتان کی جماعت سے جڑی دستیاب قیادت سیاسی رابطہ کاری اور سیاسی لائحہ عمل ترتیب دینے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔ اپوزیشن اتحاد جیسے ہی بننے کے قریب ہوتا ہے بند دروازے کھولنے کے لیے دستک کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے، یہیں سے حضرت مولانا اور ان کی جماعت شاکی ہو کر رہ جاتی ہے۔
اچکزئی بلوچستان میں کھڑے ہو کر کپتان کی دستیاب قیادت کو مقبولیت اور عوامی حمایت کا ادراک کروانے کی کوشش میں تنبیہ کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ خود کو عمران خان کا نائب قرار دے دیں۔ محمود خان پی ٹی آئی کی مقبولیت کے علاوہ محترمہ علیمہ خان پر بھی تقریباً ایسا ہی اعتماد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ بھی گاہے گاہے ان سے پارٹی کے مسائل پر کھل کر گفتگو کر لیا کرتی ہیں۔ پارٹی کا اندرونی سرکل اس پر بھی اکثر نالاں رہتا ہے۔
چند روز پہلے اپنے بھائی کے لیے بیتاب ہمشیرہ ایک میٹنگ کے دوران دستیاب قیادت کے رویے پر قدرے تلخ ہوئیں تو علی امین کے ایک جانشیں اور پارٹی کے اہم عہدیدار جواباً تلخی پر اتر آئے۔ واقفان حال بتلاتے ہیں کہ اس روز محترمہ خاصی مایوس ہوئیں، آبدیدہ ہوئیں اور کچھ بہت اہم کہتے کہتے رک گئیں۔ مذکورہ عہدیدار بعد ازاں احتراماً معافی تلافی کی کوششوں میں بھی مصروف رہے۔
دوسری جانب اعظم سواتی ہوں یا گنڈاپور، یہ یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ اندر گئے تھے۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے اور ہاتھ سے نکلتی مہلت کا ادراک کرتے ہوئے یہ ہر وہ دروازہ ناک کرنے کی اجازت مانگنے گئے تھے جہاں سے بات چیت کا آغاز ہو سکے۔ علی امین البتہ تاحال یہ سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں اڈیالہ سے پشاور بھی منتقل کروا سکتے ہیں اور بدلے میں وہ گارنٹیز بھی دلوا سکتے ہیں جو درکار ہوا کرتی ہیں۔

ربط مکمل ٹوٹ چکا تھا اور فریقین اپنی اپنی افتاد طبع کے عین مطابق مزید سے مزید تر کا بندوبست لگانے میں مصروف عمل تھے، جب سواتی اینڈ کمپنی کو ادراک ہوا کہ کہیں دیر نہ ہو جائے لہٰذا یہ حرکت میں آئے۔
اس حرکت میں برکت ڈالنے کے لیے ظاہر ہے کہ اعتماد سازی کی ضرورت تھی جس کے ابتدائی اقدامات میں ایک خارجہ کمیٹی کی تحلیل اور آفیشل سوشل میڈیا کے ذریعے انگارے دہکانے کی بجائے ہلکی شانتی رکھنا لازم تھی۔
آفیشل ٹائم لائن پر جب کپتان کے پیغامات نہ پہنچ سکے تو سوشل میڈیا ٹیموں سمیت دیگر قریبی اور کارآمد ذمہ داران کے ساتھ ساتھ عام ورکر بھی سراپا احتجاج ہوا۔ یہی وہ وقت تھا جب دستیاب قیادت پر گہرے شکوک و شبہات اٹھنا شروع ہوئے۔ ظاہر ہے سوشل میڈیا ذمہ داران بھی اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہیں۔
لیکن اس اندھیری پگڈنڈی پر اب بھی ایک ہلکی لو دور سے دکھائی دیتی ہے، جس کا ثبوت اسلام آباد آنے والے وفود اور ان کی مہمان نوازی میں پنہاں ہے۔ افتاد طبع کے کارن اقدامات بظاہر جو بھی ہوں، ادراک بہرحال اِدھر بھی ہے اور اُدھر بھی، مسئلہ اصل وہی ہے۔۔۔ افتاد طبع!
تجزیے اور تجربے کا صرف ایک فیصد بھی نافذ ہو جائے تو یقیناً فریقین قابل قبول حل تلاش کر سکتے ہیں، وگرنہ بقول اس ظالم شاعر عارفی کے؛
یہ جو صراحی جام گھڑے ہیں جناب من
خالی کسی سبب سے پڑے ہیں جناب من