’تکیے کا پرنٹ‘ جس نے لاہور پولیس کو اندھے قتل کے ملزم تک پہنچا دیا
’تکیے کا پرنٹ‘ جس نے لاہور پولیس کو اندھے قتل کے ملزم تک پہنچا دیا
جمعرات 10 اپریل 2025 11:04
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
ماڈل ٹاؤن انویسٹیگیشن ونگ نے آلۂ قتل تحویل میں لے کر دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
چاروں طرف کھیت تھے اور ان کے درمیان میں ایک ویران کنویں کے پاس گندے نالے کے قریب سے چادر میں لپٹی ایک نامعلوم خاتون کی لاش ملی۔
مقامی لوگوں کی اطلاع پر پولیس نے پہنچ کر چھان بین شروع کر دی۔
لاش کچھ پرانی اور کسی حد تک گل سڑ چکی تھی۔ نہ کوئی شناخت، نہ کوئی سراغ اور ہی نہ سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہو سکی جس سے اس اندھے قتل کا معمہ حل کرنا ممکن ہو پاتا۔
اس نامعلوم لاش نے ڈیڑھ ماہ تک ماڈل ٹاؤن پولیس کو مسلسل تفتیش پر مجبور کیا لیکن پھر دو چابیوں، سپورٹس شوز، چادر اور تکیے کے پرنٹس کی مدد سے پولیس نے نہ صرف لاش کی شناخت کی بلکہ قاتلوں کا پتا بھی لگا لیا۔
لاہور کے تھانہ کاہنہ کی حدود میں 14 فروری 2025 کو پولیس کو ایک ایمرجنسی کال موصول ہوئی۔
یہ چونکہ ایک حساس معاملہ تھا تو اس لیے ایس پی انویسٹی گیشن ماڈل ٹاؤن ڈاکٹر ایاز حسین خود اپنی ٹیم کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس کو ایک بیڈ شیٹ میں لپٹی خاتون کی لاش ملی۔ خاتون نے سنیکرز پہن رکھے تھے۔ ہمیں لاش کے ہاتھوں پر پلاسٹک کے کڑے اور اس کے زیر جامہ میں دو چابیاں بھی ملیں۔ لاش گل سڑ چکی تھی اور ہم نے جب فنگر پرنٹس کے ذریعے اس کی شناخت کرنے کی کوشش کی تو کوئی پرنٹس حاصل نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے شناخت کرنا انتہائی مشکل ہو گیا۔‘
پولیس کی جانب سے تھانہ کاہنہ میں ایف آئی آر درج کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ایک نامعلوم خاتون کو کسی نامعلوم شخص نے نامعلوم وقت پر قتل کیا ہے۔
یہ کیس پولیس کے لیے خاصا مشکل تھا کیوںکہ یہ واقعہ ایک ویران علاقے میں پیش آیا تھا جہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرے موجود نہیں تھے جبکہ لاش گلنے کی وجہ سے موت کا وقت معلوم کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔
پولیس کسی ممکنہ سراغ کی تلاش میں تھی تاکہ کیس کو آگے بڑھایا جا سکے جس کے لیے سب سے پہلے سرحدی علاقوں کے تھانوں میں خواتین کے اغوا کے مقدمات کے بارے میں معلوم کیا گیا۔
ڈاکٹر ایاز حسین کے مطابق کیس کو حل کرنے میں قریباً ڈیڑھ ماہ کا وقت لگا (فوٹو: لاہور پولیس)
ایس پی ڈاکٹر آیاز حسین بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ضلع قصور سے کل 116 ایف آئی آرز کا تجزیہ کیا اور شکایت کنندگان سے بات کی لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ اس کے علاوہ لاہور کی قریباً 300 ایف آئی آرز پر کام کیا لیکن پھر بھی ہمیں ان میں کوئی مماثلت یا سراغ نہیں ملا۔‘
ڈاکٹر ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’ہم نے چادر، دو چابیوں، سنیکرز اور عورت کے کپڑوں کی تصویریں بنائیں اور ایک پمفلٹ تیار کر کے پولیس ٹیموں کو قریبی علاقوں میں روانہ کیا۔‘
پولیس کی جانب سے 12 ٹیمیں تشکیل دے کر 12 علاقوں کی نشاندہی کی گئی اور ہر ٹیم کو ایک گاؤں تفویض کیا گیا۔
ہر ٹیم میں ایک سب انسپکٹر یا اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور تین کانسٹیبلز شامل تھے۔
پولیس ٹیمیں تفتیش میں مصروف ہی تھیں کہ ایک ٹیم کو مقامی چرواہے نے بتایا کہ ایک عورت جو بائیک چلاتی تھی اور اسی طرح کے جوتے پہنتی تھی، کئی دنوں سے غائب ہے۔
پولیس نے چرواہے سے اس خاتون کے گھر کا پوچھا اور تفتیش کا دائرہ کار اس علاقے تک محدود کر دیا گیا۔
ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر ایاز حسین کے بقول ’مخبر سب انسپکٹر کو ایک فلیٹ پر لے گیا جس کا دروازہ بند تھا۔ سب انسپکٹر نے جب جائے وقوعہ سے ملی دو چابیاں استعمال کیں تو تالا کھل گیا۔ یہ ہمارے لیے ایک اہم پیش رفت تھی۔‘
سب انسپکٹر نے فوراً اعلیٰ حکام کو اطلاع دی۔ مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہوا کہ اس خاتون کا نام ثریا بی بی تھا، جس کی عمر لگ بھگ 35 سال تھی اور وہ غیرشادی شدہ تھی۔
ڈاکٹر ایاز حسین کیس میں پیش رفت سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’یہ خاتون فلیٹ پر اکیلی رہتی تھی۔ ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ ان کا ایک بھائی چند کلومیٹر دور رہتا تھا اور ان کے درمیان زمین کا تنازع چل رہا تھا۔ ہم نے جب مزید تفتیش کی تو ہم بھائی کے گھر پہنچے اور معلوم ہوا کہ اس کے دو بیٹے تھے جو واقعے کے بعد گھر سے بھاگ گئے تھے۔‘
پولیس نے مقتولہ کے بھائی کے گھر میں چھان بین کی تو جس چادر میں لاش لپیٹی گئی تھی اسی پرنٹ کے تکیے گھر سے برآمد ہوئے جس کے بعد پولیس کا شک یقین میں بدل گیا۔
خاتون کی لاش کے کپڑوں میں موجود چابیوں نے ابتدائی تفتیش میں مدد کی۔ فوٹو: لاہور پولیس
پولیس نے ابتدائی طور پر خاتون کے دونوں بھتیجوں کو حراست میں لیا اور ان سے پوچھ گچھ شروع ہوئی۔
پولیس کے مطابق دونوں نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے پولیس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تاہم مزید تفتیش پر حقیقت سامنے آ گئی۔
اس حوالے سے ایس پی ڈاکٹر ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’خاتون کے ایک بھتیجے نے ابتدائی طور پر جرم کا اعتراف کرتے ہوئے پولیس کو گمراہ کیا۔ ہم نے جب اس سے قتل کے محرک کے بارے میں پوچھا تو اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی پھوپھی کے کسی مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور اس نے طیش میں آ کر اسے قتل کیا۔ تاہم جب ہم نے مقامی لوگوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ ثریا پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد تھے۔ در حقیقت ثریا نے اپنے بھائی سے خاندانی جائیداد میں اپنا حصہ مانگا تھا جس میں ایک پلاٹ بھی شامل تھا جبکہ اس کے بھتیجوں کو اس پر اعتراض تھا۔‘
پولیس کے مطابق ’ثریا ان کے والد کی واحد بہن تھی اور اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے دونوں بھتیجے ان کو وراثت میں حصہ نہیں دینا چاہتے تھے۔‘
پولیس نے مزید بتایا کہ 25 جنوری کو قریباً 10 بجے صبح کے وقت ثریا کے ایک بھتیجے نے اپنی پھوپھی کو گھر بلایا اور اسے ایک کمرے میں لے جا کر اس کے سر میں گولی مار دی۔
پولیس کے بقول ’پھر اس نے کمرے میں پڑی ایک بیڈ شیٹ میں لاش کو لپیٹا اور اپنے بھائی کو بلا کر لاش کو لوڈر رکشے پر لاد کر قریبی گاؤں کے ایک کنویں کے قریب پھینک دیا۔‘
ماڈل ٹاؤن انویسٹی گیشن ونگ نے آلہ قتل اور لوڈر رکشہ تحویل میں لے لیا جبکہ دونوں بھائیوں کو گرفتار کر کے تمام ثبوت محفوظ کر لیے گئے۔
ڈاکٹر ایاز حسین نے کہا کہ تفتیش کے لیے انہوں نے پولیس ٹیموں کو قریبی علاقوں میں روانہ کیا۔ (فائل فوٹو)
پولیس کے مطابق اس کیس میں دفعہ 311 لاگو کی جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ (مقتولہ) کے ورثا ملزموں کو معاف کرنا چاہیں تو ریاست کیس کو اپنے ہاتھ میں لے گی اور کسی قسم کی مصالحت یا رضامندی کی اجازت نہیں ہو گی۔
ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر ایاز حسین اس کیس کے مختلف پہلوؤں سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’یہ ہماری تفتیش کا ایک انتہائی اہم پہلو ہے کیوںکہ ہم نے یہ یقینی بنانا ہے کہ جس نے قتل سے فائدہ اٹھایا ہے یا اٹھانے کی کوشش کی ہے (خاص طور پر وراثت کے معاملے میں) وہ جائیداد کا دعویٰ نہ کر سکے۔‘
ان کے مطابق انویسٹی گیشن ونگ ماڈل ٹاؤن کے لیے یہ ایک پیچیدہ کیس تھا جس میں فنگر پرنٹس، جیو فینسنگ یا کسی بھی دوسرے طریقے سے شناخت ممکن نہ تھی تاہم ان تمام رکاوٹوں کے باوجود پولیس نے تکنیکی بنیادوں پر یہ کیس حل کیا۔
ڈاکٹر ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’اس کیس کو حل کرنے میں ہمیں قریباً ڈیڑھ ماہ کا وقت لگا۔ لاش کے زیرِجامہ میں چابیاں، سنیکرز اور پھر چادر اور تکیے کے پرنٹس میں مماثلت، یہ ایسے پہلو تھے جن کی مدد سے اس اندھے قتل کا معمہ حل ہوا۔‘