ترکی کی جانب سے شام پر حملے کرنے پر امریکی حکومت نے ممکنہ طور پر رواں ہفتے میں ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب کردوں کا ماننا ہے کہ انہیں امریکہ کی طرف سے دھوکہ ہوا ہے اور اب انہیں ترکی کے خلاف اکیلے لڑنا ہوگا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس کے نتیجے میں کردوں نے شام کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت شامی فوج کو شام اور ترکی کی سرحد پر تعینات کیا جائے گا۔
ایک بیان میں کرد انتظامیہ نے کہا ہے، ’شام کی حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پایا ہے تاکہ اس جارحیت کا سامنا کیا جاسکے۔۔۔شامی فوج کو شام اور ترکی کی سرحد پر تعینات کیا جائے گا تاکہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی مدد ہو سکے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی پر پابندیوں کے بارے میں امریکی سیکرٹیری خزانہ سٹیون نوچن نے جمعے کو کہا تھا کہ ٹرمپ نے ترکی کو نشانہ بناتے ہوئے ’بہت طاقتور‘ پابندیوں کے احکامات جاری کیے تھے جس پر انتظامیہ ان کی ترکی کو دی جانے والی دھمکی پر عمل کرنے کے لیے تیار تھی۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے ترکی کو کہا تھا کہ اگر انہوں نے شام میں کارروائی کی تو امریکہ ترکی کی معیشت کو ختم کر دے گا۔
گذشتہ روز اتوار کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ گانگریس کے کہے پر عمل کر رہے تھے جہاں رپبلکنز اور ڈیموکریٹس پابندیوں پر عمل کرنے پر زور دے رہے تھے۔
![](/sites/default/files/pictures/October/36506/2019/syria_offensive-afp.jpg)
ٹوئٹر پر لکھتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ تیار ہے اور اس پر انہیں ہر طرف سے رضامندی بھی حاصل ہے۔
روئٹرز سے اس بارے نام نہ بتانے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ایک امریکی حکومت کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہر سطح پر پابندیاں لگانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
ٹرمپ ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار تو ہیں لیکن انہیں دوسرے جانب کچھ افراد کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی ہے، جن کا ماننا ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردوغان کو کردوں پر حملہ کرنے کے لیے ہری بتی ٹرمپ ہی نے دکھائی ہے۔
Dealing with @LindseyGrahamSC and many members of Congress, including Democrats, about imposing powerful Sanctions on Turkey. Treasury is ready to go, additional legislation may be sought. There is great consensus on this. Turkey has asked that it not be done. Stay tuned!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) October 13, 2019
ٹرمپ کو امریکی فوجیوں کو سرحدی علاقے سے واپس بلانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
ترکی کی کارروائی ان کردوں کے خلاف ہے جو سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا اہم حصہ ہیں۔ لیکن سیرین ڈیموکریٹک فورسز امریکہ کی داعش کے خلاف کارروائی میں ساتھ دیتے آئے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق ٹرمپ نے امریکی فوج کو اسی لیے واپس بلایا ہے کیونکہ وہ ’نہ ختم ہونے والی جنگوں‘ سے امریکہ کو نکالنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کے اس فیصلے نے داعش کے واپس آنے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
یوں تو ترکی پر اقتصادی پابندیاں لگنا ملک کی معیثت کے لیے نقصان دہ ہوگا، امریکہ اور اس کے یورپی دوست ممالک جنگی جرائم پر سزاؤں کا انتباہ بھی دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
ترکی کو شامی کردوں سے مسئلہ کیا ہے؟Node ID: 437476
اقتصادی پابندیاں
گذشتہ ہفتے بننے والے مسودے میں امریکہ کی طرف سے ترکی پر لگائی جانے والی پابندیوں کو واضح نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے بل میں بتایا گیا ہے کہ شام میں ترکی کی کارروائی میں ملوث ترکی کے افسران اور ترکی کے شعبہ دفاع کے ساتھ رابطے میں رہنے والے بینکوں پر تب تک پابندیاں عائد رہیں گی جب تک ترکی شام میں کارروائی ختم نہیں کردیتا۔
پابندیوں سے متعلق امریکی فیصلے کے جواب میں جمعے کو ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ دہشتگردی کے خلاف ترکی کو کوششوں میں رکاوٹ کا مقابلہ کریں گے۔
امریکہ نے پہلے بھی ترکی پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ گذشتہ سال امریکہ نے ترکی پر زور دے کر ان پادری کو واپس بلا لیا تھا جنہیں ترکی وہاں دہشتگردی کے مقدمے کا سامنا تھا۔
-
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں