اچھا پہننا، کھانا اور گھومنا بھلا کسے پسند نہیں؟ اچھا پہن کر جب انسان گھومنے نکلتا ہے تو اسے بھوک بے حد لگتی ہے، پھر وہ انسان جہاں موجود ہوتا ہے اس علاقے کے روایتی کھانوں سے محظوظ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں زندگی کی ساری رونق بھوک اور کھانے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ انسان کوئی بھی کام کرلے لیکن اس کو بہتر کھانے کی تین وقت لازم ضرورت پڑتی ہے۔ کھانے جو صدیوں سے نسل در نسل ترکیبوں اور روایات کا حصہ ہوتے ہیں، ان کھانوں کے ذائقے چکھ کر، ان علاقوں کی ثقافت تہذیب کے دریچوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ کھانے خود ہی بتا دیتے ہیں کہ یہاں کا ذوق وشوق اور لوگوں کا مزاج کیسا ہے۔
یوں تو پاکستان کے کھانے بھی اپنے ذائقے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے لیکن جب انسان دیار غیر میں سفر کرتاہے تو اس کی سب سے پہلی خواہش خاص طور پر پاکستانیوں کی یہ ہوتی ہے وہ انڈین کھانا کھائے۔
یہی بات ہمیں چین میں بیجنگ، شنگھائی، شنجن میں نظر آئی۔ انڈین ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس پر پاکستانی بڑی تعداد میں موجود ہوتے تھے اور وہ ان کھانوں کو بے حد پسند کرنے کے ساتھ مزے لے لے کھاتے نظر آتے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد پاکستانی لازمی یہ کہہ اٹھتے تھے کہ بالکل گھر جیسا ذائقہ ہے۔
انڈین کھانوں کی چین میں دھوم کیوں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ یوں تو انڈین کھانے دنیا میں بےحد مقبول اور مشہور ہیں جنہیں اپنے ذائقے اور بنانے کے طریقہ کار کی وجہ سے بے حد پسند کیا جاتاہے لیکن ان کھانوں کو پاکستانی کیوں زیادہ پسند کرتے ہیں؟ وجہ جاننے کے لیے پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے لوگوں سے ہم نے بات چیت کرنا شروع کی تو انہوں بتایا کہ انڈین کھانے میں گھر جیسا ذائقہ ملتا ہے، جو چیز چٹ پٹی ہو، ذائقے دار ہو، اسے ہی کھانے کا زیادہ مزہ آتاہے۔ یہاں چین کے کھانے زیادہ تر پھیکے ہیں تو انہیں کھا کر ہمیں کچھ خاص مزہ نہیں آتا ہے۔ انڈین اور پاکستانی کھانوں میں بالکل گھر جیسی مماثلت ہے۔
چین میں بھارتی کھانوں کو بے حد پسند کیا جانا پڑوسی ہونے کی بھی ضمانت ہے،پڑوسی ایک دوسرے کی پسند اور ناپسند دونوں سے واقف ہوتے ہیں۔
نیپال اور چین میں ہمیں ایک چیز بہت دیکھنے کا موقع یوں ملا کہ انڈین اور پاکستانی ممالک کےشہری جب بھی آپس میں ملتے تھے تو ان میں بے شمار پیار اور ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات شامل ہوتے تھے۔ ان کی آپس میں ہنسی مذاق اور قربت دیکھ کر رشک آتا ہے تو دوسری جانب دونوں ممالک میں کشیدگی ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیتی ہے۔
کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا، جب اچانک آواز سنائی دی کہ ارے سنیئے! میں نے ایک قدم پلٹ کر اسے دیکھا۔ آپ کہاں سے ہیں؟ پاکستان سے۔۔۔ سچ؟ خوشی میں اس نے بےاختیار ہو کر میرا ہاتھ پکڑا لیا اوراس کی آنکھوں میں ایک نمی سے نظر آئی، لیکن اس کے چہرے پر خوشی کے تاثرات اس قدر تازہ اورروشن تھے جیسے میں اس کا کوئی بہت قریبی عزیز ہوں۔ اس نے میرا ہاتھ بہت مضبوطی سے پکڑا اور کہنے لگا آپ پاکستان کے کس شہر سے ہیں؟ میں نے جواب دیا 'کراچی سے' ہم لکھنئو سے ہیں۔ آپ سے مل کے بےحد خوشی ہوئی۔ وہ شخص سوال پر سوال کیے جا رہا تھا اور اس کے ساتھ موجود خواتین اور وہ خود میرے ساتھ تصاویر بنانے میں مصروف رہے۔
مجھے یہ عجیب سا احساس اس سے پہلے دبئی، نیپال اور اب چین میں ہو رہا تھا کہ انڈین اتنے جوش و خروش سے ہم سے کیوں ملتے ہیں، اتنا گہرا لگاؤ کیوں ہے؟
پڑوسی کتنے بھی آپس میں ناراض ہوں، حالات کشیدہ ہوں لیکن دیارغیر میں انہیں اپنائیت کی خوشبو بھی آتی ہے اور محبت کے سارے جذبے جگمگا اٹھتے ہیں۔ انڈیا سے آئے دوستوں کو صرف پاکستانی کہنے پر ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنوانا ایک دلچسپ اور بہت ہی قابل ستائش عمل لگا۔
انڈین ہوٹلوں میں سب سے خوبصورت بات یہ بھی تھی کہ ہوٹل کےاندر داخل ہوتے ہی انڈین مذہبی ٹچ نمایاں ہوتا، ایک چھوٹا سا مندر ہوٹل کے اندر موجود ہوتا تھا لوگ باری باری آتے اور عبادت سے شروع کر کے کھانے کی طرف آگے بڑھتے۔
-
’لنگر خانہ کھل گیا ہے، جب بھوک لگے آ جانا‘Node ID: 437441
-
’چل اوئے، تیری کیہڑی گل اے‘Node ID: 437546
-
سنسکرت کی دُہتر اور فارسی کی دُختر بہنیں ہیں؟Node ID: 437671
-
ایک صحافی نے کیا دیکھاNode ID: 437721چائینز کھانوں کی طرح انڈین ہوٹلوں میں بھی کھانے سے پہلے سٹارٹر ہوتا تھا جس میں ٹماٹر کا سوپ، پاپڑ، پکوڑے، چنے، دہی بھلے اور دیگر چیزیں باری باری دی جاتی تھیں۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ سالن من پسند، آپ اپنی مرضی سے بے شک جاکر اٹھا لیجیے، لیکن ہوٹلوں میں روٹی وہ جان کر اپنے ہاتھوں سے آپ کی پلیٹ میں رکھتے تھے جس سے انیست کا احساس مزید بڑھ جاتا تھا۔
چائینز کھانوں کی طرح انڈین ہوٹلوں میں بھی کھانے سے پہلے سٹارٹر ہوتا تھا جس میں ٹماٹر کا سوپ، پاپڑ، پکوڑے، چنے، دہی بھلے اور دیگر چیزیں باری باری دی جاتی تھیں۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ سالن من پسند، آپ اپنی مرضی سے بے شک جاکر اٹھا لیجیے، لیکن ہوٹلوں میں روٹی وہ جان کر اپنے ہاتھوں سے آپ کی پلیٹ میں رکھتے تھے جس سے انیست کا احساس مزید بڑھ جاتا تھا۔
وہی بول چال، ویسے ہی چہرے، آپس میں مسکراتے ہوئے، مذاق کرتے ہوئے۔ ایسے میں ملنساری پر مبنی ماحول ہر ایک کے دل کو فورا سے اپنے سحر میں جکڑ لیتا۔
ہوٹل کے اندر انڈین فلموں کی تصاویر، انڈیا کی دیہی زندگی کی پینٹنگز دیکھ کر دل خوش ہوتا تھا۔ مجھے لگا کہ دونوں ممالک کے لوگ جب کسی اور کلچر والی جگہ پہنچتے ہیں تو ایک ہو جاتے ہیں، ایک دوسرے کی کمی کو محسوس کرتے ہیں، خوش ہوتے ہیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں